تحریر: وسعت اللہ خان
جب اخبارات و رسائل اتنے زیادہ نہیں تھے تو جو بھی نیا لڑکا یا لڑکی صحافت کے پیشے میں قدم رکھتا اسے بہت سے تجربہ کار صحافیوں کی تربیتی معاونت میسر ہو جاتی۔ اس ماحول میں نوزائیدہ صحافی کو خبر کی زبان، تبصراتی تکنیک، رپورٹنگ کے بنیادی آداب جیسے گر سیکھنے کا موقع ملتا اور ایک آدھ برس کی ’پیشہ ورانہ گھسائی‘ کے بعد وہ دشتِ صحافت میں اڑنے کے قابل ہوجاتا۔لیکن پھر صحافت میڈیا کہلانے لگی اور میڈیا ’الیکٹرونک‘ ہوگیا۔ ہر تیرے میرے کو پس منظر اور تجربہ دیکھے بغیر چینل کا لائسنس ملنے لگا تو صحافت کی بستی میں ہڑ بونگ مچنا لازمی تھا۔ نووارد اہلِ سرمایہ کو اپنی سرمایہ کاری پر فوری منافع چاہیے تھا۔ فوری منافع اشتہارات سے جڑا تھا۔ اشتہارات کمانے کا دارومدار اس پر تھا کہ کس چینل کو کتنے لوگ دیکھتے یا سنتے ہیں۔چنانچہ تربیت یافتہ صحافیوں کو رجھانے کی لپا ڈکی شروع ہوگئی۔ مگر صحافیوں کی تربیت یافتہ قسم چونکہ کمیاب تھی اور چینلز کی بھوک کہیں زیادہ۔ لہٰذا منڈی میں سے ہر طرح کا مال اٹھایا جانے لگا اور وہ بھی اچھے پیسوں پر۔ یہاں تلک بھی ٹھیک تھا۔
جنگ کا اصول ہے کہ جب باقاعدہ فوج کم پڑنے لگتی ہے تو پھر ہر وہ شخص جو بظاہر صحت مند دکھائی دے اسے دو تین ہفتے کی تربیت دے کر بندوق تھما محاذ جنگ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ چینلوں میں بھی یہی جنگی فارمولا استعمال ہونے لگا اور جو جاذبِ نگاہ چہرہ، جو چرب زبان، جو دبنگ شخصیت کا مالک، جو چلتا پرزہ جوڑ توڑیا، جو زیادہ چیخنے والا دستیاب ہوا اسے ایک مختصر تعارفی تربیت سے مسلح کر کے کیمرے کے آگے بٹھایا گیا، کیمرے کے پیچھے کھڑا کیا گیا یا پھر خبر کے تعاقب میں مائیکروفون کی تلوار تھما کے روانہ کر دیا گیا۔خبر لاؤ، بھلے کسی کے گھر میں کودو، کسی دفتر میں بغیر اپائنٹمنٹ گھسو، ہوٹل کے کمروں کے دروازے توڑو، خبر نہیں تو ایجاد کرو، اصل کردار نہ ملے تو ایکٹر استعمال کرو، کرین پے جھول جاؤ یا دھماکے کی جگہ اہم ثبوت بچانے کے لیے لگائی حفاظتی پٹی پھاندو، ملبے میں پھنسے زخمی سے پوچھو اس وقت آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، ریپ وکٹم کو جھما جھم سٹوڈیو میں لاؤ اور اس کی راہ میں ماتم بچھائے چلے جاؤ۔میت کے سامنے کھڑے ہو کر بیپر دینا بھی جائز ہے اور خالی قبر میں لیٹ کر لائیو رپورٹنگ بھی حلال۔ کچھ بھی کرو مگر خبر لاؤ، اچھوتی، ایکسکلیوسیو، سنسنی خیز، دھماکے دار خبر۔ تمہاری تنخواہ چینل کی ریٹنگ سے جڑی ہے۔ نو ریٹنگ نو سیلری ۔۔۔جھوٹ سچ طے کرنے یا خبر کے سب کرداروں سے رابطے کا وقت نہیں، سٹوری لکھنے اور ایڈٹ کرنے کا ٹائم نہیں۔ بس فوراً، کسی بھی قیمت پر بریکنگ نیوز پیدا کرو۔ تصدیق و تصیح و تردید بعد میں ہوتی رہے گی۔
چنانچہ بھارت ہو کہ پاکستان، صحافت انفوٹینمنٹ سے گزر کر دیکھتے ہی دیکھتے کمیلے میں بدل گئی۔ جانور لاؤ، لٹاؤ، چھری پھیرو، گوشت بیچو۔ افرادی قوت کی تربیت پر زیرو سرمایہ کاری کیے بغیر زیادہ سے زیادہ مال، اثر و رسوخ اور دبدبہ کیسے پیدا کیا جائے۔ یہ ہے نیا آئینِ صحافت۔چنانچہ رپورٹر اب وہ گئو رکھشک بن چکا ہے جو ہر ٹرک روک روک کے دیکھتا ہے کہ کہیں گئو ماتا تو سمگل نہیں ہو رہی۔ ٹی وی چینل اور پیلے ایوننگر میں کون زیادہ زرد ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا۔اور اس ماحول میں کسی ایک دن جب ایک خاتون چینل رپورٹر کو ایک باوردی سنتری تھپڑ مار دیتا ہے تو آزادیِ صحافت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور عورت پر ہاتھ اٹھانے کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی سنا کہ اگلے مورچے پر لڑتی کوئی خاتون سارجنٹ دشمن کی گولی سے زخمی ہوگئی ہو اور یہ شور مچ گیا ہو کہ یہ کیسا بزدل دشمن ہے جو عورت پر گولی چلاتا ہے۔ جب صحافت ایک سرجیکل سٹرائیک میں، قلم خنجر میں، مائیکرو فون بندوق میں، کیمرہ مشین گن میں اور رپورٹر کمانڈو میں بدل دیا جائے تو پھر رپورٹر عورت ہے یا مرد کیا فرق پڑتا ہے۔
سامنے والے سے بنیادی اخلاقیات کی توقع تب تک جائز ہے جب تک آپ بنیادی پیشہ ورانہ اخلاقیات پر قائم رہیں۔ بصورتِ دیگر آپ احتجاج نہیں کر سکتے کہ میں نے تو صرف ایک تھپڑ مارا تھا سامنے والے نے جواب میں دو گھونسے کیوں جڑ دیے۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔کرنے کا کام یہ ہے کہ صحافتی مالکان پیشہ ورانہ تربیت و اخلاقیات پر بھی کچھ رقم اور وقت خرچ کریں۔ تاکہ صحافت، صحافت رہے۔ مگر صحافت کو میڈیا انڈسٹری کہنے والے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کرنے لگے؟ انڈسٹری میں تو صنعتی حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں۔(بشکریہ بی بی سی (