تحریر: حامد میر
آج کل جہاں بھی چار صحافی اکٹھے بیٹھ جائیں وہاں یہ گفتگو ضرور ہوتی ہے کہ پاکستان کی صحافت کا کیا مستقبل ہے؟ ان دنوں پاکستان کے اخبارات و جرائد اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ملکی معیشت جس دبائو کا شکار ہے اسکے اثرات میڈیا پر بھی نظر آ رہے ہیں۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز بند ہو رہے ہیں۔ جو ابھی بند نہیں ہوئے وہ اپنی بقا کیلئے ڈائون سائزنگ کر رہے ہیں اور کچھ اداروں میں تنخواہیں بھی کم کی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک نہ تو صحافیوں کی تنظیموں نے مل بیٹھ کر اس صورتحال کے مقابلے کیلئے کوئی مشترکہ حکمتِ عملی بنائی ہے اور نہ ہی حکومت کو سمجھ آ رہی ہے کہ میڈیا کو اس بحران سے کیسے نکالا جائے کیونکہ حکومت خود کسی نہ کسی بحران میں پھنسی رہتی ہے اور اگر ایک بحران سے نکل بھی آئے تو کوئی نیا بحران پیدا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔ تین دن پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کی اور ملکی معیشت کے بارے میں کچھ اعداد و شمار ہمیں بتائے۔ جب انہوں نے کہا کہ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران عام آدمی کیلئے مہنگائی میں کمی اور امیر لوگوں کیلئے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے تو ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ہمیں اسی قسم کے اعداد و شمار پچھلے وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل بھی دیا کرتے تھے۔ اسد عمر نے امید دلائی کے بہت جلد پاکستان کی معیشت دبائو سے نکل آئے گی۔ یہ اچھی بات سن کر ہم نے پوچھا کہ حکومت نے میڈیا کے مختلف اداروں کے اربوں روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں، کیا یہ واجبات ادا کرنے کا بھی کوئی امکان ہے تاکہ مختلف اداروں سے کارکنوں کی جبری برطرفیوں کا سلسلہ بند ہو تو وزیر خزانہ نے وہاں موجود سیکرٹری اطلاعات کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ ہمیں لکھ کر دیدیں ہم واجبات ادا کر دیں گے۔ سیکرٹری صاحب نے بڑے نستعلیق انداز میں کہا کہ ہمیں واجبات کی جو رقم بتائی گئی ہے اس کے ایک حصے پر ہمارے تحفظات ہیں، جب یہ تحفظات دور ہو جائیں گے تو ہم لکھ کر دیدیں گے لیکن کچھ رقم جلد ادا کر دی جائے گی۔ ہم اس آف دی ریکارڈ ملاقات سے اٹھ کر دفتر آئے تو پی ٹی وی پر وزیر خزانہ سے منسوب خبر چل رہی تھی کہ معیشت جلد دبائو سے نکل آئے گی لیکن اس خبر میں گفتگو کا وہ حصہ شامل نہ تھا جو میڈیا سے متعلق تھا۔ وزیر خزانہ کی آف دی ریکارڈ بریفنگ کا بھانڈا کسی اور نے نہیں پی ٹی وی نے پھوڑ دیا۔
اس ملاقات سے اگلے دن ہمیں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مریم اورنگزیب صاحبہ نے بلا لیا۔ جیسے ہی ہمارے ایک دوست ارشد شریف اس ملاقات میں تشریف لائے تو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آج کل ارشد شریف مسلم لیگ (ن) کے فیورٹ اینکر ہیں۔ یہ وہی ارشد شریف ہیں جن پر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ایک غلط خبر نشر کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کروا دی گئی تھی اور جب ہم نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے کچھ اہم وزراء سے درخواست کی کہ ارشد شریف پر ایف آئی آر ختم کی جائے تو ہمیں کہا گیا کہ آپ جمہوریت کے دشمنوں کی حمایت نہ کریں۔ چند مہینے گزرنے کے بعد جمہوریت کا یہ دشمن مسلم لیگ (ن) کا فیورٹ اینکر بن چکا ہے کیونکہ ارشد شریف کی طرف سے عمران خان کی حکومت پر بھی اسی طرح تنقید کی جا رہی ہے جیسے وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر کیا کرتے تھے۔ اچھی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ سمجھ آ گئی کہ اچھا صحافی کبھی کسی سیاسی جماعت کا مائوتھ پیس نہیں بنتا۔ اچھا صحافی عام طور پر حکومت کیلئے ولن اور اپوزیشن کیلئے ہیرو ہوتا ہے اور شاید اسی لئے وزیراعظم عمران خان کے بہت سے ہیرو ان کیلئے ولن بن چکے ہیں۔ اسی شام کچھ نوجوان صحافی مجھے ملنے آئے جو اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار تھے۔ ان کے سر پر بھی جبری برطرفی کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ اس تلوار کے پیچھے کوئی سازش تلاش کر رہے تھے۔ میں نے اپنے نوجوان ساتھیوں کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر واقعی کوئی سازش موجود ہے تو تحقیق کیجئے اور ثبوت سامنے لائیے لیکن سازشوں کا مقابلہ اتحاد سے ہوتا ہے، اگر اتحاد نہیں ہو رہا تو پھر وہ لوگ آپ کے دشمن ہیں جو اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایک نوجوان نے کہا کہ سچ بولنا بہت مشکل ہو چکا ہے میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ عائد ہے، ہم کسی سازش کو بے نقاب نہیں کر سکتے۔ عرض کیا کہ سچ بولنا ہمیشہ مشکل رہا ہے لیکن آپ سوشل میڈیا پر تو سچ بول سکتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو اس مشکل وقت میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں اور ایسے وقت کا انتظار کریں جب آپ کھل کر سچ بول سکیں۔ پاکستان کی صحافت ماضی میں بہت زیادہ مشکل ادوار دیکھ چکی ہے۔ صحافیوں پر پابندیاں لگانے والے، انہیں جیلوں میں ڈالنے والے اور انہیں کوڑے مارنے والے گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے لیکن صحافی آج بھی زندہ ہیں۔ ایک نوجوان رپورٹر نے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں کوئی مثال دے سکتے ہیں؟ میں نے فوراً حسین نقی صاحب کا نام لیا اور بتایا کہ نقی صاحب جنرل ایوب خان کے دور میں زیر عتاب آئے، پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گرفتار ہوئے، پھر جنرل ضیاء کے دور میں گرفتار ہوئے لیکن یہ گرفتاریاں ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، وہ آج بھی ہمارے ہیرو ہیں۔ نوجوان رپورٹر نے کہا کہ ہاں ہم نے حسین نقی کا نام تو سنا ہے لیکن ان کے بارے میں تفصیل نہیں جانتے۔ یہ سن کر مجھے کہنا پڑا کہ آج ہماری صحافت پر مشکل دور اسی لئے آیا ہے کہ ہمارے نوجوان ساتھی حسین نقی کو نہیں جانتے۔ حسین نقی کا ذکر ضمیر نیازی کی کتاب ’’پریس ان چینز‘‘ میں ہے، احفاظ الرحمان کی کتاب ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ میں بھی ہے اور حال ہی میں ڈاکٹر طاہر مسعود کی مرتب کردہ کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ میں بھی ان کا ذکر بار بار آیا ہے۔ یہ کتاب اردو ڈائجسٹ کے بانی الطاف حسن قریشی کی صحافتی خدمات کے بارے میں ہے۔ حسین نقی اور الطاف حسن قریشی کے نظریات میں فرق ہو سکتا ہے لیکن ان دونوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں بھی گرفتار کیا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں بھی۔ مجھے وہ شام آج بھی یاد ہے جب میں کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد زخمی تھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کچھ دوستوں کے ساتھ میری عیادت کرنے آئے اور کہا کہ فکر نہ کریں، یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ آج جب میرے ساتھی مجھے اپنی مشکلات بتاتے ہیں تو میں انہیں کہتا ہوں فکر نہ کرو، یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا لیکن اپنی صفوں میں اتحاد تو پیدا کرو۔(بشکریہ جنگ)۔۔