تحریر: سید بدرسعید۔۔
کئی سال پرانی بات ہے ۔ تب مجید نظامی صاحب حیات تھے ۔ نوائے وقت سے مذہبی رجحانات کے حامل ہمارے ایک دوست کو بعض وجوہات کی بنا پر ٹرمینیٹ کر دیا گیا ۔ مبینہ طور پر دفتری سازشوں سے وہ خود بھی دلبرداشتہ ہو چکے تھے ۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد ایک اور ادارے میں ملازمت شروع کر دی ۔ ان کا نیا دفتر نواے وقت کے قریب ہی تھا لہذا میں دفتر کے بعد اکثر ان کے یہاں چلا جاتا اور ہم خوب گپ لگاتے ۔ نوائے وقت سے جانے کے بعد ایک روز انہیں ایک مشہور مذہبی راہنما و سیاست دان کا فون آیا جن سے ان کی پرانی یاد اللہ تھی ۔ مولانا صاحب نے پوچھا نوائے وقت میں سب ٹھیک جا رہا ہے نا ؟ انہوں نے بتایا کہ وہاں تو کچھ مسائل بن گئے تھے ، دو ماہ قبل ہی چھوڑ آیا تھا ۔ مولانا صاحب پہلے تو ناراض ہوئے کہ آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں ؟ پھر کہنے لگے ، میں ابھی مجید نظامی کو فون کرتا ہوں ، آپ کل چلے جانا ، آپ کا جایننگ لیٹر تیار ہو گا ۔ ہمارے دوست نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی کہ نئے ادارے میں حالات بہتر ہیں اب نوائے وقت جانا نہیں چاہتا ۔ اسی طرح ایک بار میں نے ایک اور ادارے کے سینئر صحافی کو بڑی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی سے کہتے سنا کہ مالکان آپ کی بات نہیں ٹالتے ، سو انہیں میرا پیکج بڑھانے کی سفارش کر دیں اور سیاست دان نے کہا بے فکر رہیں میں کل ہی بات کر لوں گا ۔ ماضی میں ایک اور ادارے کے مالک نے محض اس لئے مجھے اپنے نئے میڈیا ہاؤس میں اہم پوزیشن پر جاب کی آفر کر دی کہ میں ایک محدود عشائیہ میں ان کے مرشد اور بڑی مذہبی تنظیم کے سربراہ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا جبکہ انہیں مرشد نے میری نسبت کچھ دور بٹھایا تھا ۔ وجہ بس اتنی تھی کہ چند روز قبل درویش نے ان راہنما کا انٹرویو کیا تھا لیکن میڈیا ہاؤس کے مالک کو لگا کہ میں اس تنظیم کے سربراہ کا خاص آدمی ہوں۔ اپنے صحافتی کیریئر کے دوران میں نے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ میڈیا کا سیٹھ مافیا سیاست دانوں ، جرنیلوں ، مذہبی راہنماؤں کے ایک اشارے پر صحافیوں کو اچھے پیکج پر بھرتی بھی کرتا ہے اور ایک اشارے پر نکال باہر بھی کرتا ہے ۔ یہ ڈٹے رہنا ، اڑ جانا اور مافیا سے ٹکرا جانے والی باتیں محض بکواس ہیں ۔ جنہیں اکثر صحافی ٹکرا جانا سمجھتے ہیں ان کا مافیا کے مفادات سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا ۔ یہاں تو چند دن قبل کارکردگی پر خوش ہو کر چیف رپورٹر بنانے جانے والے صحافی کو محض اس بات پر ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے کہ ایک بااثر صاحب کی بیگم صحافی سے ناخوش تھیں اور انہوں نے دوسرے سیٹھ صاحب کی بیگم کو شکایت لگا دی۔ بس چیف رپورٹر صاحب اسی وقت ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ نہ کوئی انکوائری ہوئی ، نہ کوئی شوکاز نوٹس دیا گیا ۔ یہ اوقات ہے اور بات کرتے ہیں ہم آزادی صحافت کی ۔(سید بدر سعید )