تحریر: فخر درانی۔۔
گزشتہ چھ سالوں کے دوران پاکستان میں اپنے صحافتی کام کیلئے کم سے کم 33 صحافیوں کو قتل کردیا گیا جن میں سے سات کا قتل نومبر 2018 تا اکتوبر 2019 کے دوران کیا گیا لیکن ان میں سے کسی کو بھی انصاف نہیں ملا کیونکہ ان صحافیوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی جو یہ اشارہ کر رہا ہے کہ صحافیوں کے شکاریوں نے سزا سے مکمل معافی یا استثناء سے لطف اٹھایا۔
اس بات کا انکشاف پاکستانی آزاد میڈیا حقوق کے نگران ادارے ’فریڈم نیٹ ورک‘ کی جانب سے ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ صحافی مخالف جرائم سے بریت کی پاکستان رپورٹ 2019 بعنوان ’قاتلوں کیلئے سو فیصد معافی، پاکستان کے مقتول صحافیوں کیلئے صفر فیصد انصاف: پاکستان کی صحافتی دنیا میں جرم اور سزا‘ نے ’پاکستان امپیونٹی اسکوربورڈ‘ جاری کردیا جس کے اعداد و شمار خوفزدہ کردینے والے ہیں۔۔اسکور بورڈ کے مطابق 2013 تا 2019 کے دوران 33 صحافیوں کے قتل کی کُل 32 ایف آئی آر درج ہوئیں جن میں سے پولیس صرف 20 مقدمات میں چالان (چارج شیٹ) فائل کرسکی یا صرف 60 فیصد۔
30مقدمات میں سے عدالتوں نے صرف 20 مقدمات کو ٹرائل کیلئے فٹ قرار دیا جن میں سے صرف 6 مقدمات پر استغاثہ اور ٹرائل مکمل ہوا۔ ان چھ مقدمات میں سے صرف ایک مقدمے میں ہی قاتل کو مجرم ٹھہرایا گیا لیکن وہ بھی اپیل کے مرحلے پر کامیابی کے ساتھ سزا سے بچ نکلا جس کے بعد مقتول صحافی کا خاندان وسائل کی کمی کے باعث اپنی جدوجہد سے دست بردار ہوگیا۔خالص نتیجہ 33 مقتول صحافیوں کیلئے انصاف صفر فیصد رہا۔ ان اعداد و شمار میں گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں قتل کئے گئے سات صحافیوں کے مقدمات شامل ہیں۔
ان تمام سات کیسز کی ایف آئی آر درج کی گئیں لیکن صرف چار مقدمات میں پولیس نے چالان جمع کرایا۔ عدالتوں نے ان تمام چار مقدمات کو ٹرائل کیلئے فٹ قرار دیا لیکن کسی ایک کیس میں بھی استغاثہ اور ٹرائل کا نتیجہ نہیں نکل سکا۔مختصراً یہ کہ ان سات مقدمات میں سے کوئی ایک بھی اس اہم مرحلے پر نہیں پہنچ سکا جہاں عدالتیں کوئی فیصلہ دے سکتیں اور انہیں انصاف دے سکتیں۔ فریڈم نیٹ ورک کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کے قاتلوں کیلئے سزا سے معافی یا بریت دنیا میں سب سے زیادہ معافیوں میں سے ایک ہے۔ نیٹ ورک کے مطابق اس کی رپورٹ خصوصی استثناء انڈیکس پر مبنی ہے جسے اس نے خود تیار کیا جبکہ صحافیوں کی ایف آئی آر اور ان کے خاندانوں، وکلاء اور مقتول صحافیوں کے سابق ساتھیوں کے ساتھ انٹریوز سے انکشاف ہوتا ہے کہ مختلف میڈیا جیسے کہ ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ یا ریڈیو کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا سب سے زیادہ خطرناک ہے جس کے سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے صحافیوں کی جان کو زیادہ خطرات ہوتے ہیں جیسا کہ اعداد و شمار کے مطابق 2013 تا 2019 کے دوران سب سے زیادہ یعنی 11 صحافی یہیں قتل ہوئے۔ پاکستان میں پر اسرار، بے نام اور نامعلوم ایکٹرز صحافیوں کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔دوسرا سب سے بڑا خطرہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں جن میں کالعدم دہشت گرد اور جنگو گروپس شامل ہیں جبکہ دیگر خطرات میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان اور ریاستی حکام شامل ہیں۔ تین سے چار کیسز میں صحافیوں کی جانب سے مقامی ریاستی حکام کو انہیں ملنے والی دھمکیوں کی پیشگی اطلاعات دئیے جانے کے باوجود حکام ان کی حفاظت میں ناکام رہے۔
امپیونٹی رپورٹ 2019 نے پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثناء کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے تجاویز دی ہیں جن میں صحافیوں کی حفاظت کیلئے خصوصی وفاقی و صوبائی قوانین کا نفاذ جو قانونی نظام کو صحافیوں کی حفاظت کیلئے پابند کرے،صحافیوں کی حفاظت پر خصوصی وفاقی و صوبائی پروسیکیوٹرز کی تقرری تاکہ مقدمات کی پروسیکیوشن میں بہتری لائی جائے، میڈیا ہاؤسز میں ان ہاؤس سالانہ حفاظتی آڈٹس اور حفاظتی پالیسیاں اور پروٹوکولز کا نفاذ وغیرہ شامل ہیں(بشکریہ جنگ)