تحریر: کامران سرور
پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے تو خوب ترقی کی لیکن صحافیوں کے حالات نہ بدل سکے، آج بھی وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور صحافیوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا نے تو صحافیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کسی کی کردار کشی کوئی نیا معاملہ نہیں اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے رجحان میں دن بدن تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں صحافیوں کے خلاف حالیہ مہم پر نوجوان صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے مگر یہ پہلی بار نہیں جب صحافیوں کو اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو، ماضی میں بھی مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے صحافیوں کی زبان بندی کی گئی جس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں نہ صرف صحافیوں کو نازیبا القابات سے نوازا گیا بلکہ خاتون صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور اپنی رائے کا اظہار کرنے پر ڈرایا ودھمکایا بھی گیا۔
پاکستان میں صحافیوں کی کردار کشی کی حالیہ مہم ایسے موقع پر سامنے آئی جب پوری دنیا ہر سال کی طرح اس سال بھی 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منانے جارہی ہے لیکن افسوس سوشل میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی اور ہراسانی کے حوالے سے کوئی موثر قانون دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کی رائے کی نہ صرف قدر کی جاتی ہے بلکہ حکومتیں اور دیگر ادارے ان کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں جب کہ مواد پر کنٹرول اور صحافی کی زبان بندی کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے نیک شگون نہیں سمجھا جاتا یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو آزادی اظہار رائے اور حتیٰ کہ تنقید برائے اصلاح پر بھی تنگ نظر تصور کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت میں صحافتی اداروں اور قلم کی کمان چلانے والوں کو ریاستی مشینری کے جبر کا سامنا ہے اور یہ پہلی بار نہیں جب صحافیوں کی رائے سے اختلاف یا تنقید کے بجائے انہیں مخصوص ایجنڈے کے تحت نشانہ بنایا گیا ہو۔ قانون سے بے خوف افراد منظم طریقے سے غیر مہذبانہ ہیش ٹیگ کے ذریعے صحافیوں کی کردار کشی میں مگن دکھائی دیتے ہیں جس کی بہترین مثال صحافیوں کے خلاف حالیہ مہم ہے جسے نیچے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ویب سائٹ ’بول بھی‘ کے مطابق سوشل میڈیا پر متنازعہ پوسٹ پر 2017 سے 2019 کے درمیان 20 لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں کچھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو کچھ کو حراست میں لیا گیا۔ ان افراد میں 2 صحافی بھی شامل تھے۔ صحافی طحیٰ صدیقی کو متنازعہ پوسٹ کی وجہ سے ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کیا گیا جب کہ ڈیلی قدرت سے تعلق رکھنے والے صحافی ظفراللہ اچکزئی کو ایف آئی اے کی جانب سے حراست میں لیا گیا جسے بعد ازاں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
صحافیوں کے خلاف حالیہ مہم میں ملک کے نامور صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں، حامد میر، سلیم صافی، عمر چیمہ، مبشر زیدی، ارشد وحید چوہدری، اور فخر درانی شامل ہیں، ان تمام صحافیوں کے خلاف نہ صرف اخلاقیات سے گری ہوئی زبان استعمال کی گئی بلکہ انہیں ’لفافہ صحافی‘ سمیت ایسے نازیبا القابات سے نوازا گیا جو یہاں بیان کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔
خاتون صحافی اور سماجی کارکن ماروی سرمد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے خلاف ہیش ٹیگ کا سلسلہ ارشد وحید چوہدری پر اس الزام سے شروع ہوا کہ انہوں نے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے پریس کانفرنس کے دوران طے شدہ سوال پوچھا اور اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی لیکن یہ ٹرینڈ چلانے والا شخص پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا حصہ ہے اور میرے خیال سے لوگ اسے جانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی تنقید کا شکار بننے والے سینئر صحافی ارشد وحید چوہدری سے جب میں نے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے کم وبیش روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم کس کس کے خلاف شکایت درج کروائیں اور پھر ان شکایات کا کوئی فائدہ ہی نہیں کیوں کہ پہلے بھی ہمارے ساتھیوں نے متعدد بار شکایات درج کر رکھی ہیں اور ابھی بھی درجنوں ایسے کیسز ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں لیکن چونکہ یہ ادارہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور اس مہم چلانے والوں کے تانے بانے بھی وہی ملتے ہیں اس لیے ایف آئی اے کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی روکنے کے لیے سائبر کرائم کے حوالے سے قوانین میں ترمیم اب لازم ہوچکی، (ن) لیگ کے دور حکومت میں کچھ ترامیم ہوئی تھیں لیکن وہ بھی ناکافی ہے اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
خیال رہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2016 میں قومی اسمبلی میں سائبر کرائم بل پیش کیا تھا جسے سینیٹ کمیٹی کی جانب سے ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا اس بل میں ایسے 23 جرائم کی وضاحت کی گئی جن پر ضابطہ فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہو سکیں گی جب کہ اس بل کے بعد کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھجوانے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا جائے گا تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے لوگوں کی آزادی رائے متاثر ہوگی۔
نیشنل پریس کلب کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے ذریعے صحافیوں کے خلاف چلنے والی حالیہ مہم کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ ان کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مہم چلانے والوں سے معافی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے جب میں نے سیکریٹری جنرل نیشنل پریس کلب انور رضا سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ارشد وحید چوہدری سمیت تمام صحافیوں کو یقین دلایا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور چونکہ یہ جرم سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے اس لیے پہلے درخواست ایف آئی اے کو دی جائے گی لیکن اکثر یہ معاملات معافی تلافی کے ذریعے ختم ہوجاتے ہیں اور کیس آگے نہیں بڑھتا لیکن اگر کوئی صحافی اس کیس کو آگے لے جانا چاہے تو ہم ان کی ہرممکن مدد کریں گے اور اگر ایف آئی اے سے انصاف نہیں ملا تو عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکٹائیں گے۔
صحافیوں کے خلاف حالیہ مہم پر میں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر جی ایم جمالی سے بھی رابطہ کیا، انہوں نے صحافیوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے، موجودہ حکومت جب سے آئی ہے صحافیوں کو ڈرانے اور دھماکنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔ انٹرنیشل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے بھی اس بات کا نوٹس لیا ہے اور حکومت کو باور کروایا ہے کہ صحافیوں کو ہرممکن تحفظ فراہم کیا جائے۔
معروف تجزیہ کار اور پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکریٹری مظہر عباس سے جب میں نے پوچھا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا سوشل میڈٰیا کی وجہ سے صحافیوں کے لیے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں کیوں کہ سب انفرادی طور پر بات کررہے ہیں جس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کی بات کا انجام کیا ہوسکتا ہے، میڈیا ہاؤسز صحافیوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں لیکن اگر کوئی صحافی اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر رائے کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس کی ذمہ داری اداروں پر نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے صحافتی تنظیموں کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ تنظیمیں اب بہت کمزور اور آپس میں تقسیم ہوگئی ہیں۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے سینئر نائب صدر رضوان بھٹی سے جب میں نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سوشل میڈٰیا پر صحافیوں کی اس طرح تضحیک نہیں ہوتی تھی لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اس میں تیزی آئی ہے اور جب بھی کسی صحافی کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے تو وہ فوراً ان کے خلاف ٹرینڈ بنادیے جاتے ہیں جب کہ ہم اس حوالے سے وقتاً فوقتاً سیاسی جماعتوں سے بات کرتے رہتے ہیں اور عالمی یوم صحافت کے دن بھی ہم نے ایک راؤنڈ ٹیبل میٹنگ منعقد کی ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے جس کا موضوع آزادی اظہار رائے ہے۔
اس حوالے سے ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے جب میں نے پوچھا تو ’ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی‘ کے بلاگ ایڈیٹر فہیم پٹیل کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے خلاف ٹوئٹر پر چلنے والے حالیہ ٹرینڈ انتہائی غیرمناسب، غیر اخلاقی ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے خطرے کی علامت ہے کیوں کہ اس سے ملک کا پڑھا لکھا طبقہ سیاست میں حصہ لینے سے گریز کرے گا۔
پاکستان میں اردو کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ’ایکسپریس ڈاٹ پی کے‘ کے ہیڈ اویس احمد خان نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ان اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، چونکہ یہ مہم سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل کی جانب سے چلائی جاتی ہے لہذا سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکرز کی تربیت کرنی چاہیے اور حکومت کو بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایف آئی اے کو کارروائی کے لیے کھلی چھوٹ دینی چاہیے۔
جیو ڈاٹ ٹی وی سے وابستہ نیوز پروڈیوسر سید عامر حسین سے جب ان کی رائے طلب کی گئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جس طرح جمہوریت ایک آزاد صحافت کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح جمہوری حکومت بھی صحافیوں کے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاکر جمہوری حکومت نہیں کہلاسکتی بلکہ ہم اسے سول ڈکٹیٹر شپ کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں غیراعلانیہ سنسرشپ کا سامنا ہے، حکومت کی شان میں صحیفے لکھنے والے صحافی اس وقت حکومت کا جگر گوشہ ہیں لیکن اصلاحی تنقید اور ناقص کارکردگی پر نشتر چلانے والوں کو حکومتی کمین گاہوں سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔
ٹوئٹر صارفین سے جب صحافیوں کی کردار کشی کے حوالے سے رائے لی گئی تو انہوں نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ پرائیوٹ شعبے سے تعلق رکھنے والے نوجوان عبدالرحمان نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی بھی اس کا حصہ نہیں بنتے یہ صرف سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں جو مخصوص ایجنڈے کے تحت صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اور ٹوئٹر صارف عدنان خان نے صحافیوں کے خلاف حالیہ مہم پر بات کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ مہم ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے میڈٰیا سیل کی جانب سے کی گئی کیوں کہ ماضی میں بھی ان صحافیوں کو پی ٹی آئی کی جانب سے ہی نشانہ بنایا گیا۔
سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس کی طرح ’ٹوئٹر‘ کے قوائد وضوابط بھی کسی شخص کو ہراساں کرنے یا اس کی کردار کشی کی اجازت نہیں دیتا لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ان اکاؤنٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس پر سائبر کرائم پر دسترس رکھنے والے قانونی ماہر ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے مجھے بتایا کہ ٹوئٹر خود سے اپنے صارفین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا جب تک انہیں کسی کے خلاف رپورٹ موصول نہ ہو، نفرت انگیز مواد شیئر کرنے والے اکاؤنٹس کے خلاف ایف آئی اے میں درخواست دائر کی جاسکتی ہے جس کے بعد ایف آئی اے کے پاس تحقیقات کے لیے 3 ماہ کا وقت ہوتا ہے البتہ ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کی صورت میں متاثرہ شخص ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کرسکتا ہے۔
ماضی میں صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کے ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان کے نامور تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلیم صافی نے 8 اکتوبر 2018 کو ایک پروگرام میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے حوالے سے ایک تجزیہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف وزیراعظم ہاؤس کے تمام بل اپنے جیب سے دیتے رہے ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا پر سلیم صافی کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا کی گئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سینئر صحافی سلیم صافی کے ساتھ ہونے والے واقعے سے متعلق جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اس حوالے سے ایف آئی اے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کیس پر میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ سب کچھ وزیراعظم کی ایما پر ہورہا ہے تو ایسے میں اس کے ماتحت ادارے یعنی ایف آئی اے میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ میرے خلاف مذہبی جماعتیں، پی ٹٰی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں، حتی کہ افغانستان سے بھی ایسا ہوتا رہا ہے تو میں کس کس کے خلاف کارروائی کروں، یہ ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے، دنیا میں جب بھی ایسا ہوتا ہے تو ریاستی ادارے اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں لیکن جس ملک میں اس طرح کے واقعات خود حکومتی لوگوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے ہو تو اس سلسلے کو روکنا ممکن نہیں ہے۔پاکستان میں صرف مرد صحافی ہی نہیں بلکہ خاتون صحافیوں کو بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ معروف نیوز اینکر غریدہ فاروقی کو سوشل میڈیا پر ان کی کام کی وجہ سے متعدد بار ہراساں کیا جاچکا ہے لیکن فروری 2019 میں ان کی ایک ٹوئٹ کے بعد نہ صرف ان کے خلاف منظم مہم چلائی گئی بلکہ انہیں دھمکی آمیز کالز بھی موصول ہوئیں۔
نیوز اینکرغریدہ فاروقی سے میں نے پوچھا کہ انہوں نے اس کیس کو کتنا سنجیدگی سے لیا جس پر انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے 2 دن بعد ہی میں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا مگر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جب کہ میں نے متعدد بار رابطہ کیا تو مجھے یہی کہا گیا کہ ہم نادرا سے رابطے میں ہیں لیکن ہمیں کوئی ریکارڈ نہیں ملا، ایف آئی اے کے پاس ہیں جتنے بھی کیس ہیں ان میں سے کوئی بھی انجام تک نہیں پہنچا۔ غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی کردارکشی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے بھی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی، خاص طور خواتین کے ساتھ جو بدسلوکی کی جاتی ہے اس پر بھی حکومت حرکت میں نہیں آتی، میں نے اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری سے بھی رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ان اکاؤنٹس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہم مگر انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے مجھے اداروں سے رابطہ کرنے کا کہا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہی آپشن رہہ جاتا ہے کہ صحافی برادری اکھٹا ہوکر اپنی حفاظت کے لیے خود اقدامات اٹھائیں لیکن اس کیس کے حوالے سے میں ایف آئی اے کی کارروائی کا انتظار کررہی ہوں اگر وہاں سے ناکامی ہوئی تو عدالت بھی جاؤں گی۔
اپنی اسٹوری کے حوالے سے میں نے حکومتی موقف بھی لینے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا، سب سے پہلے میں نے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں جس پر ہم نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں متعدد بار فون کالز و میسجز کیے مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ بعد ازاں میری سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری سے بھی بات ہوئی لیکن انہوں نے بھی اس پر اپنی رائے دینے سے گریز کیا، میں نے انہیں یاد بھی کروایا کہ جب نیوز اینکر غریدہ فاروقی کو ہراساں کیا گیا تو وہ اس وقت وزیراطلاعات تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا موقف دینے سے انکار کیا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔۔