aemra do election do vote humein bhi do

صحافیوں کے الیکشن اور نئی ٹینشن۔۔

تحریر: سابق سینئر صحافی۔۔

وزیر اعظم عمران خان کا کوالالم پور کانفرنس میں شریک نہ ہونا اور اسکے بعد طیب اردگان کی جانب سے اس چیز کاذکر ہونا کہ سعودیہ عرب کی جانب سے یہ دھمکی دی گئِ کہ اگر پاکستان شریک ہوا تو ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ پاکستانی لیبر جو سعودیہ میں ہے اسکو واپس بھیج دیں گے۔ یقینا بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے کہ جو قومیں خود کفیل نہیں ہوتیں انکے ملک کیساتھ ایسا ہی رویہ ہوتا ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور سیاسی اشرافیہ،ججز،جرنیل ، بیوروکریٹس اور بڑے بڑے بزنس مینوں کے بچے اور سرمایہ باہر کے ملکوں میں ہے۔ خاص طور،یورپ ،امریکہ اور دوبئی میں۔پھر انکی بلا سے جو ہوتا ہے ہو جانے دیں۔

دوسرا ہمارا روایتی حریف بھارت ہے لیکن اس سے بروقت جنگ کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور تجارت بھی جاری رہتی ہے۔ یعنی نقصان ہر حال میں جنگ ہو یا امن افتادگان خاک ہی نے اٹھانا ہے۔یہ ملک آزاد ہوا تو ایجنٹ مل گئے۔ انگریز جو یہاں رہ کر یہاں کے وسائل پر قابض تھا وہ گیا تو اسکے ایجنٹ وہی کام کرنے لگے۔ لوٹ کر سرمایہ اور بچے باہر،علاج باہر،تعلیم باہر،رہائش باہر۔یہ تلخ حقیقت ہے جو تسلیم کرنی چاہئے۔کسی بھی یونین کے الیکشن پاکستان میں دیکھ لیں۔ وہ لڑتا کون ہے۔ سیاسی خاندان دیکھ لیں۔وکلا کے الیکشنز دیکھ لیں۔ کروڑوں روپے خرچہ آتا جو بھی امیدوار الیکشن میں حصہ لیتا۔ تحصیل اور ضلع کی سطح پر کچھ کم خرچہ لگا لیں۔

اب جو خود کفیل ہونے اور اپنے معاشرتی رویے کی بات میں لکھنے لگا ہو اس سے شاید میری صحافتی برادری ناخوش ہوجائے۔لیکن سچ لکھنا چاہئے۔۔اور مجھے کوئی ہیرو بننے کا فل الحال شوق نہیں ہاں کبھی خواہش ضرور تھی لیکن گردش ایام اور معاشی حالات نے وہ فل الوقت ختم کردی ہے۔

میں اپنی صحافی برادری میں بہتری کا خواہش مند ہوں بلکہ بہت نوجوان صحافیوں کو میں جانتا ہوں جو بہتری چاہتے ہیں۔لیکن انکا فقط گزارا تنخواہ پر ہے۔ ہم ہماری برادری میں پر وہ صحافی الیکشن لڑنے کا اہل ہے جس کے گھر دانے ہیں۔ہر وہ لیڈر ہے جو کم از  کم 1500 روہے روزانہ خرچہ کرسکتا ہو۔ یا پھر جسکو پیچھے سے سپورٹ حاصل ہو۔کوئی ایسا نوجوان یا سنئیر صحافی جو الیکشن لڑنا چاہے اور جسکا مشن سیٹھ کی وفادری اور کرپشن کی بجائے عملی طور پر اپنی کمیونٹی کی بہتری ہو۔ وہ ہماری برادری کو اتنا قابل قبول نہیں ہوتا۔اب ایسا بھی نہیں کہ ہماری برادری میں ایماندار صحافی نہیں۔ بہت ساروں کو میں بذات خود جانتا ہوں بقول غالب جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ لیکن ان میں سے بہت سے کنارہ کشی اختیار کئے بیٹھے ہیں اور جو چند نام لیوا ہیں وہ جان کی مان پاتے ہوئے نوکری بچا رہے ہیں۔جب پورا ایک قومی مزاج ہی ایسا ہے تو پھر تنقید کیسی۔کسی ایک سیاسی جماعت،ادارے یا یونین کو کوسنا نہیں بنتا۔

جب تک اجتماعی طور پر شعور نہیں ہوگا۔ہم ایسے ہی رہینگے۔ یا یہ سننے کو ملے گا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ خود کفیل بنیں۔ بات تو سچ ہے۔ خود کفیل ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ علم میں بہت سے دوست خود کفیل ہیں۔ سنئیرز بھی ہیں۔ لیکن معاشی طور پر وہ خود کفیل نہیں اس لئے قابل قبول نہیں۔ لہذا یہی صورتحال ہمارے ملک کی عالمی سطح پر ہے۔ کیونکہ یہ خود کفیل عوام کا ملک نہیں۔یہ اشرافیہ کا سہولت کار اور انکے ایجنٹوں کا ملک ہے۔مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ چشمہ یہی سے پھوٹے گا اور چند ہی تاریخ کا رخ موڑتے ہیں۔جو چند ایک نام لیوا ہیں انکی تلاش کیجئے۔ وہ پراسرار بندے آپکے آس پاس ہی ہیں۔(ایک صحافی جس نے جرنلزم کو خیر آباد کہہ دیا)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں