تحریر، عبید الرحمن اعوان
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں پاکستان بدترین معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے لیکن جو کڑا وقت میڈیا انڈسٹری پر آیا ہوا ہے شاید اس کی کوئی تاریخ میں مثال نہیں ملے گی لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ صحافیوں اور میڈیا نمائندوں کی نمائندگی کی دعویدار صحافتی تنظیموں اور ان کے عہدیداران کی خاموشی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال میں ملک بھر سے چھ ہزار کے قریب میڈیا ورکرز کو جبری برطرف کردیا گیا نہ ہی کسی کو کوئی نوٹس ملا اور نہ ہی ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی، پروفیشنل صحافیوں کی بہت بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جنہیں نہ تو کوئی دوسرا کام آتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی سائیڈ بزنس ہے کہ اگر میڈیا کی نوکری اچانک چلی بھی جائے تو دوسری طرف سے گھر کے نظام کو چلایا جاسکے، ایسے پروفیشنل صحافیوں کو جب میڈیا کے سیٹھ اچانک سے برطرفی کا پروانہ تھما دیتے ہیں تو وہ سچ مچ کے بیچ بازار میں ننگے ہوجاتے ہیں۔
کئی اداروں میں سیٹھ نے بڑے ہی میٹھے انداز میں چھری چلائی، طریقہ واردات کچھ یوں تھا کہ پہلی بار ادارے سے اچانک کچھ ورکرز کو فارغ کردیا گیا جس سے باقی بچ جانے والوں میں خوف پھیل گیا کہ کہیں ہماری نوکری نہ چلی جائے پھر سیٹھ نے پیغام دیا کہ ادارے کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہمیں مزید ورکرز کو نکالنا ہوگا اور اگر نوکری بچانے ہے تو پھر تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی برداشت کرنا ہوگی، لوگوں نے سوچا کہ بے روزگار ہونے سے بہتر ہے کہ یہ پیش کش قبول کرلی جائے
ایسا ہی ہوا لیکن پھر سیٹھ نے وہ کم تنخواہ بھی دیر سے دینا شروع کردی، کئی اداروں میں انکریمنٹس بند ہوئے، میڈیکل کی سہولت ختم کردی گئی، فیول اور موبائل الاؤنس بھی چھین لیئے گئے یہ سب کرکے بھی سیٹھ کو چین نہ آیا اور اب ایک بار پھر چھانٹیوں اور جبری برطرفیوں کی ہوا چل پڑی ہے جس میں ہمارے کئی دوست اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، میڈیا ورکرز کے ساتھ مظالم کی ایک طویل داستان ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز کے نام نہاد عہدیداران کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو سب جیسا کہ بھنگ پی کر سو رہے ہیں، لاہور اور اسلام آباد میں ایکشن کمیٹی بنی اور انہوں نے تھوڑی بہت آواز بلند کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کراچی میں اپنی لیڈری چمکانے کے لیئے صحافیوں کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے الگ یوجیز بنانے والے نام نہاد لیڈران اپنے اداروں میں اپنی اپنی نوکریاں پکی کرنے اور مالکان سے مراعات لینے میں مصروف ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ میڈیا ہاؤسز سے نکالے گئے ورکرز کے گھر کا چولہا کیسے جل رہا ہے ان کے بچوں کے اسکول کی فیسیں ادا ہورہی ہیں یا اسکول والوں نے تنگ آکر بچوں کے نام ہی خارج کردئیے، مالک مکان کو کرایہ دیا یا پھر اس نے کرایہ نہ دینے پر سامان سڑک پر پھینک دیا، کون ہے جو ان کی دادرسی کرے گا، جب بھی پیمرا یا کی کیبل والوں نے کسی چینل کو آف ایئر کیا تو یہی ورکرز سڑکوں پر نکلتے رہے اور مظاہرے کرتے رہے، جب بھی ملک میں جمہوریت بچانے کی بات آئی تو انہی ورکرز نے کوڑے کھائے، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور انہوں نے جیلیں کاٹیں لیکن افسوس کہ آج ان کے گھر میں جھانکنے والا کوئی نہیں اور اگر جلد ہی کراچی سے کوئی منظم تحریک شروع نہ ہوئی تو پھر کوئی بھی نہیں بچ پائے گا۔۔(عبیداالرحمان عوان)۔۔
(کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی عبیدالرحمان کی یہ تحریر انکی فیس بک وال سے لی گئی ہے، جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)