تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
اماں بتاتی تھیں کہ ان کی دُور پار کی ایک رشتہ دار خاتون کے بارے مشہور تھا کہ کسی کے گھر کوئی فوت ہو جاتا تو وہ گھر کے کونے میں خواتین کو لطیفے سنا رہی ہوتی تھی۔ یعنی جب گھر والے میت کو رو رہے ہوتے‘ انہیں اس وقت مزاح سوجھ رہا ہوتا تھا‘ لیکن جب کسی کے گھر شادی ہو رہی ہوتی تو اس خاتون کو زمانے بھر کے دکھ یاد آ جاتے۔ وہ سر پر پٹی باندھے خواتین کو اپنے دکھڑے سنا کر رو رہی ہوتی تھی۔ یعنی ایک طرف پورا گھرانہ خوش ہے‘ ڈھول بج رہا ہے‘ جھمر‘تالی ہورہی ہے لیکن ان کے آنسو نہیں رک رہے۔ اب خواتین کو سمجھ نہ آتی کہ وہ شادی والے گھر جھمر ڈالیں یا اس خاتون کے بہتے آنسو پونچھیں۔لگتا ہے میرے اوپر بھی وہی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔ یہ دکھ کا وقت ہے‘ عوام آٹے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں جبکہ آٹے کا ریٹ کئی گنا اوپر چلا گیا ہے‘ غریب‘ امیر سب پِس کر رہ گئے ہیں‘ ایسے وقت میں مجھے اپنے اندر موجود اس کمینی خوشی کا احساس سرشار کر رہا ہے کہ لوگوں کو آٹا نہیں مل رہا۔
آپ یقینا کہیں گے کہ میرا دماغ خراب ہوگیا ہے یا میرے اندر احساس ختم ہو چکا ہے کہ اس گھڑی مجھے کمینی خوشی ہورہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ جو ہورہا ہے‘ ٹھیک ہورہا ہے۔ ہونے دیں۔ کیا واقعی میرا دماغ خراب ہوگیا ہے یا میرے اندر احساسِ زیاں ختم ہوگیا ہے؟ سوچ آپ بھی ٹھیک رہے ہیں اور سوچ میں بھی ٹھیک رہا ہوں۔ مجھے بتائیں جس ملک کے پاس دو سال پہلے تک اپنے کھانے کے لیے کافی گندم موجود تھی تو عمران خان کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہمارے پاس بہت گندم ہے‘ باہر بھیج دیتے ہیں۔ یوں چند لاکھ ٹن گندم باہر بھجوا دی گئی۔ باہر ہم سے گندم کس نے خریدنی ہوتی ہے کیونکہ ہماری گندم کا معیار اُن کی کوالٹی شرائط پر پورا نہیں اترتا‘ لہٰذا ہمارے پاس عالمی گاہک کم ہی آتے ہیں۔ آ جا کر ہم افغانستان کو ہی گندم تحفے میں یا بارٹر پر دے دیتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو عثمان بزدار کے دور میں بھی گندم سکینڈل سامنے آیا تھا جس کی بڑی انکوائری ہوئی تھی لیکن وہ رپورٹ بھی دب گئی کیونکہ کس میں جرأت تھی کہ وہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے خلاف کوئی کارروائی کرتا۔
جب گندم باہر بھیج دی تو دو ماہ بعد پتا چلا کہ جناب غلطی ہوگئی‘ ہمارے تو اپنے گھر کے دانے پورے نہیں ہو رہے‘ فوراً گندم باہر سے نہ منگوائی گئی تو ملک میں بھوک ناچے گی اور آٹے پر فسادات ہوں گے۔ وہی عمران خان حکومت جس نے لاکھوں ٹن گندم باہر بھجوا دی تھی‘ اب اس نے فوراً روس سے چالیس لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ کیا اور کروڑوں ڈالرز قرض لے کر روس کو ادائیگی کی گئی۔ اس سال بھی روس سے تیس لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ شہباز شریف نے کیا لیکن ابھی تک یہ قلت دور نہیں ہوئی۔ یوں دو سال میں تقریباً 70لاکھ ٹن گندم ہم روس سے منگوا چکے ہیں اور ذہن میں رکھیں ہمارے پاس ڈالرز بھی نہیں اور پچھلے سال ہم نے تقریباً دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی‘ کپاس اور دالیں قرض لے کر منگوائی ہیں۔ایک زرعی ملک جہاں کبھی گندم‘ کپاس‘ چینی وافر مقدار میں موجود ہوتی تھی‘ اب وہ کہاں غائب ہوگئی؟ چینی کی سن لیں‘ 2019ء میں چینی کے بارے وفاقی وزیر عبدالرزاق داؤد نے عمران خان کابینہ کو بتایا کہ ہمارے پاس بیس لاکھ ٹن وافر چینی پڑی ہے‘ باہر بھجوا دیں۔ اور تو اور اس مد میں چار ارب روپے کی سبسڈی بھی عوام کی جیب سے دی گئی۔ جونہی پتا چلا کہ چینی باہر جا رہی ہے تو ساتھ ہی لوکل مارکیٹ میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کی قیمت باون روپے فی کلو سے ایک سو بیس روپے تک پہنچ گئی۔ یہی مقصد تھا شوگر ملز مالکان کا۔ انہوں نے عوام کی جیب سے اربوںروپے نکلوا لیے۔ چند دنوں بعد پتا چلا کہ لوکل چینی بھی ختم ہوگئی ہے۔ اپنے کھانے کو بھی نہیں۔ رزاق داؤد نے عمران خان کی کابینہ کو بتایا کہ دراصل چینی ایسوسی ایشن نے انہیں بیوقوف بنایا تھا۔ انہیں جھوٹے اعدادوشمار دے کر چینی ایکسپورٹ کرالی تھی۔ ہمارے پاس تو اپنے کھانے کے لیے چینی نہیں ہے۔ خان صاحب نے کہا کوئی بات نہیں‘ گندم کی طرح چینی بھی باہر سے منگوا لو۔پھر قرض پر ڈالرز لے کر چینی منگوائی گئی۔ یوں ایک سال عمران خان کابینہ نے گندم اور چینی باہر بھجوا ئی اور اگلے سال اربوں ڈالرز قرض لے کر لاکھوں ٹن واپس منگوا لی۔یہ حالت ہے آپ کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی ‘جن کے لیے یہی قوم جان لینے اور دینے پر تلی ہوئی ہے‘ جنہیں یہ تک پتا نہ تھا کہ اگر آپ نے اپنے گھر کی گندم اور چینی بیچ دی تو ہم خود کیا کھائیں گے؟
کبھی ہم نے سوچا کہ ہر سال گندم اور کاٹن کا رقبہ کیوں کم ہو رہا ہے؟ ہمارے اندر ایک جنون بھر گیا ہے اور ہم نے زرعی رقبوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا لی ہیں۔ اس ملک میں اب اور کچھ نہیں ہو رہا‘ ہر وہ جگہ جو ہری بھری نظر آئی‘ اس پر بورڈ لگا کر‘ فصلیں اجاڑ کر مٹی کے سینے کو سیمنٹ اور سریے سے بھر دیا۔کوئی عقلمند انسان کبھی دریائے راوی کے اردگرد سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر تعمیرات کی اجازت دے گا؟ عثمان بزدار نے وہ سوا لاکھ ایکڑ رقبہ دیا اور وزیراعظم عمران خان نے جاکر اس کا افتتاح کیا۔ اب مجھے بتائیں‘ جس وزیراعظم نے کچھ ماہ پہلے بیرونِ ملک سے اربوں ڈالرز کی گندم اور چینی منگوائی ہووہ کیسے زرعی زمینوں پر تعمیراتی منصوبے کا افتتاح کر سکتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں پنجاب حکومت نے پولیس بھیج کر راوی کنارے رہنے والے کسانوں سے زرعی زمین کا قبضہ لینے کی کوشش کی‘ ان پولیس والوں نے کسانوں کو مارا اور قبضہ کر لیا۔ گندم بونے کے بجائے اب ان زمینوں پر فارم ہاؤسز اور ولاز بنیں گے۔آپ ملتان چلے جائیں‘ جو کبھی آموں کا شہر تھا‘ وہاں اب ہر جگہ آپ کو رہائشی منصوبے نظر آتے ہیں۔ سب کچھ اجاڑ دیا گیا ہے۔ آپ اسلام آباد سے چلیں‘ لاہور تک آپ کو سڑک کنارے زرعی رقبہ نہیں بلکہ تعمیرات نظر آتی ہیں۔ اور تو اور اب ٹیکسٹائل ملز والوں نے بھی ایکسپورٹ چھوڑ کر یہی کام شروع کر دیا ہے کہ کون عالمی مارکیٹ میں جاکر ڈالرز کمائے جب گھر بیٹھے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ ہر طرف زرعی زمینیں ختم ہورہی ہیں‘ حکمران‘ بیورو کریٹس‘ ٹھیکیدار حتیٰ کہ صحافیوں سمیت سبھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ پورا ملک ایک پلاٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ سب اس اونٹ کو ذبح کر کے اپنا ایک پائو گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ اب یہ ملک ریئل اسٹیٹ والے چلا رہے ہیں۔ وزیراعظم ہو یا وزیراعلیٰ یا وزیر‘ سب کو کنٹرول کرتے ہیں۔اب عوام آٹا کیوں ڈھونڈ رہے ہیں؟ جب میرے جیسے چند صحافی زرعی زمینوں کی تباہی پر شور مچاتے تھے کہ ملک کا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ چندہ دینے والوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اس ملک کو تباہ کررہا ہے‘ اس طرح تو قحط آ ئیں گے‘ تو آپ سب لوگ الٹا ہمارے درپے ہو جاتے تھے۔ اس لیے اب آپ آٹا تلاش نہ کریں کیونکہ آپ کا آٹا حکمرانوں کے یار دوست‘ چندہ دینے والے بلڈرز اور اے ٹی ایمز کھا گئے ہیں۔ آب آپ عوام سریا اور سیمنٹ کھائیں اور ہاں دھیان رہے‘ چباتے وقت منہ سے آواز بھی نہ نکالیں کیونکہ یہ آداب کے خلاف ہے۔ ہاں اگر سریا‘ سیمنٹ ہضم نہ ہورہا ہو تو اپنے اپنے پسندیدہ لٹیرے لیڈر کی تقریریں رپیٹ پر آنکھیں بند کرکے سنیں اور ان کے مخالفین یا ناقدین کو منہ بھر گالیاں دے کر اپنا خالی پیٹ بھریں۔(بشکریہ دنیانیوز)