supreme court mein youtubers ke daakhle par pabandi ka imkan

صحافیوں کو نوٹسز کا معاملہ،کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی۔۔

سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے سے متعلق کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی ، اٹارنی جنرل نے صحافیوں کیخلاف نوٹسز پر کارروائی انتخابات تک مؤخر کرنے کی یقین دہانی کروادی ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، پریس ایسوسی ایشن کے وکیل جہانگیر جدون نے گذشتہ روز کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟سماعت شروع ہوئی تو عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کل کا حکم نامہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جاٸے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔چیف جسٹس نے سابق ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا، آپ کے  موکل کیا ایک وزیر ہیں؟ جہانگیر جدون نے کہا کہ جی وہ وزیر ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وہ بطور وزیر بے یارو مددگار ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ جی وہ ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ سب کو پتہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں، اب سپریم کورٹ میں تین رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے کہ درخواست آنے کے بعد طے کرے گی، کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی؟ صحافی عقیل افضل نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کن صحافیوں کے خلاف کارروائی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں، اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا، ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں۔حیدر وحید ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مل کر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن کے باوجود نوٹسز واپس نہیں ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر قائم ہوں، نوٹس واپس کرنے کا طریقہ کار ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت ایسے سوموٹو لے تو بھی صحافی اعتراض کریں گے، مزید کیس کیسے آگے چلائیں یہ بتا دیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن ہمارے سامنے ہے نہ ہی کسی نوٹس کی کاپی، لسٹ ملی یا نہیں جنہیں نوٹسز ملے ہیں ان کے تو جمع کرائے جا سکتے تھے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ میں بھی سمجھ رہا تھا کہ کوئی درخواست آئے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایف آئی اے میں پیش ہوا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی کو آج تک کے لیے روکا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی تحریری مواد کے بغیر اٹارنی جنرل کو درخواست کر سکتے ہیں حکم نہیں دے سکتے۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ ایف آئی اے نے تنقید اور ٹرولنگ کو مکس کر دیا ہے، میڈیا کو ٹارگٹ کرنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا صحافی جھوٹ لکھ سکتا ہے؟ صدر پی ایف یو جے نے جواب دیا کہ صحافی کیلئے جھوٹ لکھنا جرم ہے۔مطیع اللہ جان نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کیا جائے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ اس دوران احتیاط سے رپورٹنگ کریں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی صرف صحافیوں کے بیانات قلمبند کرنے ہیں جنہوں نے ٹویٹس کئے، بس اتنا کام ہے؟

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں