supreme court mein youtubers ke daakhle par pabandi ka imkan

صحافیوں کو ہراساں کرنے پر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل، سماعت کل ۔۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے پرجسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ازخود نوٹس کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔اے آر وائی نیوز کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس عمرعطابندیال نےپانچ رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا ہے، لارجربینچ کی سربراہی خود قائم مقام چیف جسٹس عمرعطابندیال کریں گے جبکہ جسٹس قاضی فائز جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں قائم بینچ کاحصہ نہیں ہونگے۔بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمدامین،جسٹس محمدعلی مظہرشامل ہونگے، پانچ رکنی لارجر بینچ چھبیس اگست کے بجائے پیر کو کیس کی سماعت کرے گا، کیس سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو نوٹس جار ی کردیا گیا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی مفاد میں نوٹس لیا تھا،صحافیوں کوہراساں کرنےپرسپریم کورٹ کےازخودنوٹس کا تحریری حکم جاری کیا تھا۔فیصلے ‏میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایف آئی اے نے اپنےدائرہ اختیار سے تجاوز کیا ‏پریس ریلیز میں نہیں لکھا صحافیوں نے عدلیہ کے خلاف کیا رپورٹ کیا؟ ایف آئی ‏اےنےتاثردیامقدمات عدلیہ کی جانب سےدرج کرائے۔عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے سےصحافیوں کیخلاف تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے ‏کہ ڈی جی ایف آئی اے بتائیں کی پریس ریلیز ان کےحکم پرجاری ہوئی؟ آزادانہ رپورٹنگ کرنےوالوں ‏کوبرطرف کرناآئین کی خلاف ورزی ہے، پیمرابتائےآئین کی خلاف ورزی کرنےوالے میڈیاہاؤسز کیخلاف ‏کیا کارروائی کی؟عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ پیمرا آگاہ کرے میڈیا کی آزادی برقرار رکھنے میں اس کا کیا کردار ‏ہے پیمرابتائےتمام جماعتوں کی یکساں کوریج کیلئےکیااقدامات کیے؟ کیمروں کےہوتےصحافیوں کا ‏اغوا اور حملے نااہلی ہیں یاشریک جرم ہونا، الزام لگایا میڈیا ہاؤسز مخصوص سیاسی نظریے کی ترویج ‏پرآمادہ ہوئے۔فیصلے میں وزارت اطلاعات سے ایک سال میں جاری اشتہارات کی تفصیلات طلب کی گئی، فیصلے ‏کے مطابق وزارت مذہبی امور بتائے سچ بولنے اور نشر کی حوصلہ افزائی کیلئےکیا اقدامات کیے ‏گئے ہیں۔

قبل ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ،ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر تے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹوں سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی مفاد میں نوٹس لیا۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق کو بھی معاملے کی رپورٹس کے ہمراہ 26 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔مذکورہ درخواست پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صحافیوں عمران شفقت، عبدالقیوم صدیقی، عامر میر اور امجد بھٹی کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ساتھ ہی عدالت نے کیس کو مذکورہ بالا بینچ کے سامنے ہی 26 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا اور ان کی آزادی اظہار رائے کا بنیادی حق تلف کرنا عوامی مفاد کا مسئلہ ہے۔اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور مقدمات کی پیش رفت رپورٹس بھی طلب کر لی۔صحافیوں کی دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے تھے لیکن خبر کو دیانت داری سے رپورٹ کرنے کی وجہ سے ’بیرونی افراد‘ کی ایما پر ہمیں ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ اُن ’افراد‘ کی جانب سے کوئی خط یا رسمی شکایت نہیں کی گئی تھی بلکہ واٹس ایپ کال پر ہمارے آجر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے ہمیں نوکریوں سے نہ نکالا تو ادارے کی انتظامیہ کو سنگین نتائج بھگتا پڑسکتے ہیں اور چینل بھی بند ہوسکتا ہے۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ ملازمتوں سے نکالے جانے کے بعد ہم میں سے اکثر نے یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے نیوز شوز شروع کیے لیکن یہاں بھی ہمیں ہراسانی، اٹھائے جانے، تشدد، ڈرانے، گولی مارنے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ساتھ ہی کہا گیا کہ ہمیں اغوا کرنے، تشدد یا گولی مارے جانے کی خبریں بھی مین اسٹریم میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کچھ اخبارات نے ایسا کیا تو انہیں سرکاری اشتہارات سے محروم کردیا گیا۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ صورتحال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ جن ریاستی اداروں کو ہمارا تحفظ کرنا تھا وہ ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرواتے ہیں جن کی نقل درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی شہری ہیں لیکن آزادانہ طور پر کام کرنے، سانس لینے سے قاصر ہیں اور ہم سے ہمارے بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ ہمارے موبائل فونز اور کمپیوٹرز غیر قانونی طور پر چھین لیے گئے جس میں ہماری ذاتی معلومات اور خفیہ ذرائع سے ملنے والے اطلاعات تھیں جو آئین کی دفعہ 13 کی خلاف ورزی ہے۔درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے گھروں میں گھس کر اسلحہ تان کر تشدد کر کے اور اٹھا کر ہماری عزت اور رازدی اور آئین کی دفعہ 14 کی یومیہ خلاف ورزی جاری ہے اور ہم سے معلومات اگلوانے کے لیے ہم پر تشدد بھی کیا گیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہماری زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور ہمیں سچ بولنے اور شائع کرنے سے روکا جارہا ہے کیوں کہ وہ کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہوسکتا ہے۔مزید برآں عدالت نے سیف سٹی پراجیکٹ کی فوٹیج اور خرچے کی تفصیلات، وزارت اطلاعات کو ایک سال کے اشتہارات اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔عدالت نے مختلف اوقات میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی تفصیلات اور اس ضمن میں دائر مقدمات پر پیش رفت کی رپورٹ بھی طلب کرلی جبکہ متعلقہ حکام کو سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اورپراجیکٹ کے اخراجات پیش کرنے کی ہدایت کی۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے پریس کونسل آف پاکستان ،سی پی این ای،اے پی این ایس، پی بی اے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے علاوہ اٹارنی جنرل پاکستان، چاروں صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرل صاحبان اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹسز جاری کر دیے جبکہ وزارت اطلاعات سے گزشتہ ایک سال کے اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں، وزارت مذہبی امور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب مانگا گیا ہے کہ وزارت مذہبی امور بتائے کہ اب تک سچ کے فروغ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔عدالت نے تمام مسول الیان کو آئندہ سماعت تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت بھی کی ہے جبکہ درخواست کو آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدلیہ تمام شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے ،صحافیوں کو ہراساں کرنا بنیادی انسانی حقوق اور عوامی مفاد کا مسئلہ ہے۔عدالت نے اپنے آرڈر میں قرار دیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا آئین کے آرٹیکل گیارہ ،تیرہ،چودہ ،اٹھارہ،انیس ،انیس اے،تئیس ،چوبیس اور پچیس کی خلاف ورزی ہے۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں