تحریر: حامدمیر
یہ 17مارچ 2021 کا واقعہ ہے۔ سکھر میں ایک نوجوان صحافی اجے کمار لالوانی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ انہیں تین گولیاں لگیں۔ زخمی صحافی کو اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ اجے کمار لالوانی ایک ٹی وی چینل کے لئے کام کرتے تھے اور ایک مقامی اخبار کے لئے بھی لکھتے تھے۔
موت سے قبل وہ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے ایک طالب علم عرفان جتوئی کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کر رہے تھے اور انہیں کچھ دھمکیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔ پاکستان میں صحافیوں کو دھمکیاں ملنا ایک معمول ہے۔ کسی پر دھمکی کام کر جاتی ہے اور کسی پر نہیں کرتی۔ اجے لالوانی نے بھی دھمکی کو نظر انداز کیا اور قتل کر دیے گئے۔اس قتل پر صحافی برادری نے احتجاج کیا تو مقامی پولیس نے چار افراد کو گرفتار کر لیا۔ مقتول صحافی کے خاندان نے الزام لگایا کہ پولیس اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کر رہی چنانچہ اجے کمار لالوانی کے مقدمہ قتل کا تفتیشی افسر تبدیل کیا گیا۔ تفتیشی افسر تبدیل ہوتے ہی ملزمان بھی بدل گئے اور پولیس نے دو مقامی سیاست دانوں کے علاوہ ایک پولیس افسر کو اجے کمار لالوانی کا قاتل قرار دے دیا۔ تینوں بدستور مفرور ہیں۔ پاکستان میں اکثر صحافیوں کے قاتل یا تو مفرور رہتے ہیں یا نامعلوم ۔
16فروری 2020 کو سندھ کے علاقے محراب پور میں ایک سندھی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی عزیز میمن کی لاش مقامی نہر سے برآمد ہوئی تو پولیس نے اس واقعے کو خود کشی قرار دیا۔ صحافیوں نے پولیس کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خودکشی نہیں، قتل تھا۔
شہر شہر مظاہرے ہوئے تو عزیز میمن قتل کیس کی تفتیش تبدیل کی گئی اور پھر یہ موت خود کشی کی بجائے قتل قرار پائی۔ اس مقدمہ قتل کے مرکزی ملزمان بھی بدستور مفرور ہیں۔ مارچ 2018 میں روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ صحافی ذیشان اشرف بٹ کو سمبڑیال میں گولیاں مار دی گئیں۔ جس وقت انہیں گولیاں ماری گئیں وہ ایک مقامی پولیس افسر کو فون پر اپنے قاتل کا نام بتا رہے تھے جو اُن پر حملہ کرنے والا ہے اور فون کال کے دوران ہی گولیاں چل گئیں۔
اس فون کال کی ریکارڈنگ سیالکوٹ پولیس کے پاس ابھی تک موجود ہے لیکن مرکزی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا۔ 23جولائی 2020کو بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک صحافی انور جان کھیتران کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
انور جان کھیتران کے قتل کی ایف آئی آر میں بارکھان سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیر کو نامزد کیا گیا لیکن پولیس نے اس وزیر کے ایک باڈی گارڈ کی گرفتاری پر اکتفا کیا اور اصل ملزم پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
گزشتہ سال انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلٹس نے ایک وائٹ پیپر شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ 1990سے 2020کے دوران پاکستان میں 138صحافیوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیا گیا۔ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں اضافہ گیارہ ستمبر 2001کے بعد ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو پر اپنی پالیسی تبدیل کی تو پاکستان میں ریاست کے خلاف عسکریت پسندی کے واقعات بڑھ گئے۔
ایک طرف ریاست نے قومی مفاد اور حب الوطنی کے نام پر میڈیا کو حقائق چھپانے پر مجبور کیا تو دوسری طرف عسکریت پسندوں نے میڈیا کو سامراجی قوتوں کا ایجنٹ قرار دینا شروع کر دیا۔ میڈیا دونوں اطراف کا ٹارگٹ بن گیا۔
2006میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی حیات ﷲ خان اسلام آباد آئے اور مجھے بتایا کہ وہ شدید دبائو میں ہیں۔ انہوں نے میر علی میں ایک امریکی ڈرون حملے کو میڈیا میں بےنقاب کیا تھا۔
حکومت نے اس ڈرون حملے کو بم دھماکہ قرار دیا تھا لیکن حیات اللہ خان نے حملے میں استعمال ہونے والے امریکی میزائل کے ٹکڑوں کی تصاویر جاری کر دیں جن پر ’’میڈ ان یو ایس اے‘‘ لکھا ہوا تھا۔ حیات ﷲ خان سے کہا گیا کہ وہ حکومت سے تعاون کریں یا پھر صحافت چھوڑ دیں۔
حیات ﷲ خان نے مجھے پوچھا کہ ’’کیا کروں؟ صحافت چھوڑ دوں؟‘‘ میں نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ صحافت مت چھوڑو۔ وہ واپس چلا گیا۔ کچھ دن بعد حیات ﷲ خان کو اغوا کر لیا گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں بہت شور مچایا۔ جلوس نکالے اور پارلیمنٹ ہائوس کے باہر مظاہرے کئے۔ ہمیں یقین تھا کہ حیات اللہ خان کو رہا کر دیا جائے گا۔ پھر ہمارا یقین ٹوٹ گیا۔ حیات ﷲ خان کی گولیوں سے چھلنی لاش میر علی کی سڑک پر پھینک دی گئی۔ ہم نے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پائو کی کوشش سے ایک تحقیقاتی کمیشن بن گیا۔ حیات ﷲ خان کی اہلیہ نے اس کمیشن کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا تو اس مظلوم عورت کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ پھر اس کا ایک اور بھائی بھی قتل ہو گیا جس کے بعد حیات ﷲ خان کے چھوٹے چھوٹے بچے میر علی چھوڑ کر پشاور منتقل ہو گئے۔ تحقیقاتی کمیشن خاموش رہا، مظلوم کو انصاف نہیں دیا گیا البتہ قتل کے 15سال بعد صدر مملکت کی طرف سے 23مارچ 2021کو حیات ﷲ خان کو تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان کیا گیا جو ان کے برخوردار کامران حیات نے وصول کیا۔ حیات ﷲ خان کے خاندان کو انصاف نہیں دیا گیا۔ تمغۂ شجاعت دے دیا گیا، یہ نہیں بتایا گیا کہ حیات ﷲ خان نے کس کے خلاف شجاعت کا مظاہرہ کیا؟ میں کس کس کا ذکر کروں؟ کس کس کی شجاعت کے قصے لکھوں؟ سوات میں جیو نیوز کے نمائندے موسیٰ خان خیل سے خضدار میں اے آر وائی کے نمائندے عبدالحق بلوچ تک کے قاتلوں کو ہم جانتے ہیں لیکن ہم انہیں انصاف نہیں دلوا سکتے۔ صحافت پاکستان میں ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔
آپ لاپتہ افراد کی بات کریں تو نامعلوم نمبروں سے آپ کے فون پر دھمکیاں آنے لگتی ہیں۔ اب تو نامعلوم نمبروں سے دھمکیوں کا تکلف بھی ختم ہو گیا ہے۔ طاقتور لوگوں کے میڈیا میں موجود ٹائوٹ سوشل میڈیا پر کھلم کھلا ایسے صحافیوں کو دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں۔ جو پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، گرفتار پہلے کرتے ہیں مقدمہ بعد میں بناتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2020سے اپریل 2021تک پاکستان میں صحافیوں پر 148حملے ہوئے جو پچھلے سال کی نسبت 40فیصد زیادہ ہیں۔ صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے اسلام آباد، اس کے بعد صوبہ سندھ اور پھر صوبہ پنجاب میں ہوئے۔ رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافیوں کیلئے خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد کے چپے چپے پر سیکورٹی کیمرے نصب ہیں لیکن جب مطیع ﷲ جان کو اغوا کیا جائے یا احمد نورانی پر حملہ کیا جائے تو یہ کیمرے خود بخود کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ اس شہر میں 2011 سے جرنلٹس پروٹیکشن بل پر کام ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں صحافیوں کے تحفظ کا بل قومی اسمبلی میں نہ لا سکیں البتہ تحریک انصاف کی حکومت کے دو وزرا ڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چودھری نے اس بل کی تیاری شروع کی۔ کچھ عرصہ قبل وزارتِ انسانی حقوق اور وزارت اطلاعات نے مل کر ایک ڈرافٹ کابینہ سے منظور کرایا اور کلیئرنس کیلئے وزارتِ قانون کو بھجوایا۔وزیر قانون فروغ نسیم نے اسے مسترد کر دیا۔ تین مئی کو آزادی صحافت کے عالمی دن پر پاکستان کی اصل حقیقت یہی ہے کہ صحافیوں کیلئے خطرناک ترین شہر اسلام آباد میں موجود وزارتِ قانون صحافیوں کے تحفظ کیلئے بنائے جا رہے قانون کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔