sahafion ki zaati maweshi mandi

صحافیوں کی ذاتی مویشی منڈی

تحریر: وقاص خان۔۔

عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے اور ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے چھوٹی بڑی منڈیاں لگنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جہاں ایک طرف ماہرین 40 فیصد تک جانور مہنگے ہونے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں تو وہیں سجی ہے ایک ایسی منڈی جسے شعبہ صحافت سے وابستہ احتشام شامی اور عاصم خان چلا رہے ہیں۔

بظاہر یہ چھوٹی نظر آنے والی منڈی دراصل ایک گھر ہے جس کے صحن میں محدود تعداد میں جانور لائے جاتے ہیں اور فروخت ہونے کی صورت میں اندرون سندھ کی منڈیوں سے مزید جانور لانے کا سلسلہ عید تک جاری رہتا ہے۔

اس چھوٹی سی منڈی کا آغاز 5 سال قبل ہوا جب احتشام اور عاصم نے اپنے اندر کے شوق کو پورا کرنے کی غرض سے یہ قدم اٹھایا اور پہلے ہی سال ان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا، دوست احباب نے اس کام کو جاری کرنے کا مشورہ دیا اور یوں یہ شوق کاروبار میں ایسا بدلا کہ اب ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔

عاصم خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ کام صحافت سے بھی مشکل ہے۔ ایک صحافت کا میدان ہے جہاں ہم زور آزمائی کر رہے ہوتے ہیں دوسرا یہ میدان ہے جس میں ہم سالانہ طور پر اپنا شوق پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ میرا بچپن کا شوق تھا کہ میں گھر کی چھت یا گیلری میں بکرے پالوں۔

انہوں نے کہا کہ بکرے پالنے کا شوق تو ابھی تک پورا نہیں ہوا لیکن سیزن میں اللہ تعالیٰ نے یہ شوق پورا کر دیا ہے۔ ہم صحافی مل کر یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اوائل میں تھوڑی سی رقم سے یہ کام شروع کیا تھا۔ نقصان بھی اٹھایا لیکن دوسرے سال صحافی بھائیوں نے ہمت بندھائی اور کام جاری رکھا۔ اب تسلسل کے ساتھ ہر سال ہم یہ کام کرتے ہیں۔

شعبہ صحافت سے وابستہ احتشام شامی نے اس حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ دفتر کے ساتھ ساتھ یہ کام ایک مشکل عمل ہے۔ اب ہمیں 5 سال بیت گئے ہیں تو اندازہ ہوا ہے کہ کون سی پیڑی یا منڈی کس دن لگے گی۔ کراچی یا اندرون سندھ جہاں سے ہمیں اچھی قیمت کے جانور مل جائیں ہم لے آتے ہیں اور پھر ہم آن لائن فروخت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹارگٹ صحافی برادری اور نوکری پیشہ افراد ہیں کیوں کہ ہم ایسے جانور لاتے ہیں جو ان کی پہنچ میں ہوں، مشکلات بہت ہیں لیکن شوق کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

احتشام شامی کا کہنا تھا کہ ہم اس شعبے میں نئے ہیں اور جہاں مویشی خریدنے جاتے ہیں وہ لوگ تجربہ کار ہوتے ہیں اور معاملات طے کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، ہم ایک بجٹ بنا کر جاتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب کوئی آن لائن ہمارے جانور دیکھ کر خریدنے آتا ہے تو دلچسپ مرحلہ تب پیش آتا ہے جب وہ سوال کرتے ہیں کہ آپ تو بیوپاری لگتے نہیں کیسے کررہے ہیں یہ کام تو ہم انہیں جب بتاتے ہیں کہ ہم صحافی ہیں تو پھر ہم سے ملکی صورت حال اور سیاست کا احوال پوچھا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ عمران خان کا کیا ہوگا۔ پی ڈی ایم کیا کر رہی ہے اس طرح آدھا گھنٹہ گزارنے کے بعد انہیں بکرا لینے پر آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم سے اگر کوئی زیادہ وزن والے بکرے کی ڈیمانڈ کرتا ہے تو وہ ہم آرڈر پر لے آتے ہیں لیکن ہم تنخواہ دار طبقے کے حساب سے زیادہ بکرے لاتے ہیں۔۔ (بشکریہ وی نیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں