justice mansoor ka raasta pti ne roka

صحافیوں کی تقسیم در تقسیم

تحریر: حامد میر۔۔

یہ ایک صحافی کی کہانی ہے جسے گولی مار کر قصہ ماضی بنا دیا گیا لیکن کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ وہ صحافی پھر سے زندہ ہو چکا ہے۔روز روز گولی مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا لہٰذا اس سرکش صحافی کو سمجھا بجھا کر خاموش کرنے کی کوشش ہوئی لیکن وہ سچ بولنے سے باز نہ آیا تو اسے ملک دشمن قرار دیکر دوبارہ گولی مار دی گئی۔گولی مارنے والے مطمئن ہوگئے کہ سرکشوں کو سبق سکھا دیا گیا۔اب کوئی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور آزادی صحافت کے نام پر ریاست کے ساتھ گستاخیاں نہیں کرے گا لیکن گستاخ صحافی ایک نئے نام اور چہرے کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گیا۔ گولیاں مارنے والوں اور گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی یہ کہانی 16دسمبر 1857ء سے شروع ہوتی ہے جب ایک صحافی مولوی محمد باقر کو برطانوی فوج نے باغی اور دہشت گرد قرار دیکر گولی مار دی تھی۔مولوی محمد باقر نے 1837ءمیں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا اجراء کیا۔1857ء میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت ہوئی تو مولوی محمد باقر نے اخبار کا نام بدل کر’’اخبارالظفر‘‘ رکھ دیا ۔انہوں نے مغل حکومت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو مزاحمت کا استعارہ بنانے کی کوشش کی جو کسی جرم سے کم نہ تھا ۔انہوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو برطانوی سامراج کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔اس زمانے میں لاہور سے شائع ہونے والا اردو کا اخبار ’’کوہ نور‘‘ باغیوں کو مفسدین اور انگریزی فوج کو ’’دلیران انگریزی‘‘ لکھتا تھا۔’’کوہ نور‘‘کا ایڈیٹر منشی ہرسکھ رائے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مالی معاونت بھی لیتا تھا اور باغیوں کے حامیوں کو واجب القتل قرار دیتا تھا۔ جب انگریزوں نے دہلی کو فتح کر لیا تو مولوی محمد باقر کو گولی مار دی گئی ۔وہ اردو صحافت کے پہلے شہید قرار پائے تو انگریزی فوج کا مخبر قرار دیکر ان کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔مولوی محمد باقر آج بھی آزادی صحافت کے حامیوں کیلئے ہیرو ہیں لیکن جبرواستبداد کے نمائندے انہیں صحافی ماننے کیلئے تیار نہیں۔1990ء کے بعد سے پاکستان میں 150 اور بھارت میں 125سے زیادہ میڈیا ورکرز کو قتل کیا جا چکا ہے ۔اکثر مقتول صحافیوں کو انکی اپنی برادری فرائض کی انجام دہی میں جان قربان کرنے والا ساتھی قرار دیتی ہے لیکن گولی مارنے والے انہیں ملک دشمن یا کسی ادارے کا مخبر قرار دیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ مولوی محمد باقر کبھی سلیم شہزاد بن کر زندہ ہو گئے ،کبھی ولی خان بابر اور کبھی موسیٰ خان خیل بن کر زندہ ہو گئے۔انہیں بار بار گولیاں مار کر ختم کیا گیا لیکن وہ نئے ناموں سے پھر زندہ ہو جاتے ہیں۔

کچھ سال پہلے بلوچستان کے ایک نوجوان صحافی ارشاد مستوئی نے ’’بلوچستان …تنازعات اور صحافت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور بتایا کہ کس طرح بلوچستان میں ڈاکٹر چشتی مجاہد اور فیض ساسولی جیسے صحافیوں کو ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے قتل کیا اور دوسری طرف گوادر پریس کلب کے صدر لالہ حمید بلوچ اور خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کو ریاست کے حامی مسلح گروہوں نے گولی مار دی ۔ارشاد مستوئی کی یہ قلمی کاوش ایک گستاخی قرار پائی اور ایک دن انہیں بھی ان کے دفتر میں گھس کر گولی مار دی گئی۔صحافیوں پر تنقید کرنا اور ان پر الزام لگانا بہت آسان ہے لیکن بہت کم لوگوں کو یہ احساس ہے کہ پاکستان میں حقیقی صحافت بہت مشکل ہو چکی ہے۔سچ بولنے کا مطلب شوق ِشہادت ہے ۔اب تو بچ بچا کر آدھا سچ لکھنا بھی خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔جب بھی کوئی صحافی مارا جاتا ہے تو اس کے قتل کی تحقیقات کرنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے صحافیوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔جنرل ضیاءالحق نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے دو کے چار گروپ بنا دیئے اور آج پی ایف یو جے کے آٹھ نو گروپ ہیں۔اب صحافی تنظیموں کا کام یہ ہے کہ جب کوئی ساتھی مارا جائے تو مذمتی بیان جاری کر کے خاموش ہو جائو ۔کوئی صحافی گرفتار ہو جائے تو اسے کسی جماعت کا کارکن یا یو ٹیوبر قرار دیکر نظرانداز کر دیا جائے۔ہمارے ایک ساتھی ارشد شریف کے ساتھ بھی یہی ہواجب وہ زندہ تھا اور ٹی وی اسکرین پر تلخ نوائی کرتا تھا تو اسے طعنے دیئے جاتےتھے کہ تم تو ٹی وی اینکر ہو، تمہارے پاس بڑی سی گاڑی ہے اور لاکھوں کی تنخواہ ہے، تم سچ بولنے کا خطرہ مول لے سکتے ہو لیکن عام صحافی سچ کیسے بولے؟اس کے پاس نہ گاڑی ہے نہ بڑی تنخواہ؟ ارشد شریف کسی سے زیادہ بحث نہیں کرتا تھا۔اس نے خود بھی ایک چھوٹے سے میگزین کی ملازمت سے صحافت شروع کی ۔اپنی محنت سے مقام بنایا لہٰذا اپنے مقام کی وضاحت کرنے کی بجائے جو صحیح سمجھا بولتا رہا ۔کئی دفعہ اس نے میرے ساتھ اختلاف کیا لیکن اس کا اختلاف کبھی اخلاق کے دائرے کو عبور نہیں کرتا تھا ۔2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو ارشد شریف نے بڑے جارحانہ انداز میں اس تحریک عدم اعتماد پر تنقید کی۔ اس پر بہت سے مقدمات بنا دیئےگئے پھر وہ پاکستان سے کینیا چلا گیا۔جب اس نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا تو اسے پراسرار حالات میں کینیا میں قتل کر دیا گیا۔جب اس کا ’’تار تار پیرہن‘‘ تابوت سے باہر آیا تو پتہ چلا کہ قتل سے پہلے اس پر تشدد کیا گیا تھا۔میں نے 3نومبر 2022ء کو ’’ارشد شریف کا بار بار قتل‘‘ کے عنوان سے اسی کالم میں مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے ساتھی کے قتل کی انکوائری کیلئے کمیشن بنایا جائے ۔کمیشن تو نہ بنا لیکن سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔اس معاملے کو بھی ڈیڑھ سال گزر گیا۔ سپریم کورٹ سے بھی انصاف نہ ملا تو ہم نے عدالتی کمیشن بنانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ۔اس درخواست میں ہم نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا ہم تو صرف ایک کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔درخواست کی سماعت کے دوران میرے ساتھ محمدمالک، کاشف عباسی، عارفہ نور، سمیع ابراہیم، مطیع اللہ جان، عمران ریاض اور بہت سے صحافی موجود تھے ۔عمران ریاض کی یہاں موجودگی پر بہت سے لوگ حیران اور کئی لوگ پریشان تھے۔جب وہ گرفتار ہوئے تو کہا گیا وہ صحافی نہیں ہیں ۔کچھ دن پہلے اسد طور گرفتار ہوئے تو ان کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ و ہ فیک نیوز پھیلانے و الے یو ٹیوبر ہیں۔صحافیوں کو آپس میں لڑانے اور تقسیم کرنے والوں کو یہ اچھا نہیں لگا کہ آج عمران ریاض اور اسد طور میرے ساتھ مل کر ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔اگر ارشد شریف کو سپریم کورٹ سے انصاف مل جاتا تو آج ہائیکورٹ کے ججوں کو ان حالات کا سامنا نہ ہوتا جن پر وہ اپنے خطوط میں ماتم کر رہے ہیں ۔ارشد شریف کا قتل کیس ہمارے عدلیہ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔آج تک کسی مقتول صحافی کو عدالتوں سے انصاف نہیں ملا ،ارشد شریف کو انصاف دلا دیں۔ارشد شریف کو انصاف مل گیا تو ناصرف صحافت بلکہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے راستے بند ہو جائیں گے ورنہ کل کسی اور ارشد شریف کو گولی مار دی جائے گی۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں