رپورٹ:منیر عقیل انصاری۔۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور انٹرنیشنل فیڈر یشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے تعاون سے صحافیوں کے لئے لیبر قوانین کے حوالے سے پریس کلب میں ایک روزہ تر بیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔تربیتی ورکشاپ میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور خصوصا خواتین صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے کراچی پریس کلب کے سیکر ٹری شعیب احمد، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر جی ایم جمالی،کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے سابق صدر، سینئر صحافی سید حسن عباس ، انٹرنیشنل فیڈر یشن آف جرنلسٹس(آئی ایف جے) کی فوکل پر سن اور ورکشاپ کی ٹرینر شہر بانواور آئی ایف جے کی پاکستان میں جینڈر کوآرڈینیٹر لبنیٰ جرار نقوی نے بھی شرکاءسے خطاب کیا۔سیکرٹری پریس کلب شعیب احمد نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور انٹرنیشنل فیڈر یشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) اورورکشاپ کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھاکہ میڈیا ورکرز کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اس طرح کی ورکشاپ کے ذریعے میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے ملازمین اپنے حقوق کے بارے میں بہتر انداز میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں ورکرز اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں رکھتے ہیں۔شعیب احمد کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کراچی پریس کلب ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت دیگر یو جیز کے ساتھ مل کرمیڈیا ملازمین کے حقوق کے بارے میں مکمل آ گاہی کی ضرورت ہے جس کے لیے سب کو مل کر میڈیا ملازمین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔
ان کاکہنا تھا کہ کہ آئی ایف جے نے جس طرح میڈیا قوانین اور ان کے حقوق کے بارے میں سندھ سمیت کراچی کے صحافیوں کے لیے اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے یہ خوش آئند ہے۔ ہمیں اس حوالے سے قانونی ماہرین اور لیبر قوانین کے بارے میں آگاہی رکھنے والے ایکسپرٹ کے ساتھ مل کرمیڈیا ملازمین کے حقوق کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
سیکریٹری کراچی پریس کلب کا کہنا تھا کہ آج کا صحافی اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف اداروں میں اپنے ملازمتوں کے حوالے سےبہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں اور آئے دن بڑی تعداد میں میڈیا ملازمین خصوصا رپورٹر،کیمرہ مین کو ملازمتوں سے برخاست کیا جارہا ہے اور ان کی ملازمت کی سیکورٹی اور نہ ہی سیفٹی کا کسی کو خیال ہے ہر آنے والا دن میڈیا ملازمین کے لیے نئے نئے مسائل کا شکا ر ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس دور جدید میں ہمیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے ہم اپنی شکایات یا اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے دور جدید کے جدید تقاضوں یعنی اپنی آن لائن شکایات یا مسائل کو بین الاقوامی سطح پر ہم آسانی سے اجاگر کر سکتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اندرون سندھ کے صحافیوں اور نمائندوں کی ماہانہ تنخواہ مقرر نہیں کی جاتی ہے اور اس پر کوئی بات نہیں کی جاتی ہے۔
شعیب احمد کا کہنا تھا کہ میں اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آئی ایف جے کا اور خصوصاً ورکشا پ کی ٹرینر شہربانو، کے یو جےکے سابق صدر سینئر صحافی سید حسن عباس ، اور دیگر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کے انہوں نے کراچی کے صحافیوں کے لیے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے لیبر قوانین کے حوالے سے آگاہی فراہم کی ہے۔ کراچی پریس کلب اس طرح کی ورکشاپ کے لیے اپنا بھر پور تعاؤن جاری رکھے گا اور میڈیا ملازمین کے حقوق کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں میں آپ کے ساتھ ہوگا مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی آئی ایف جے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، میڈیا ملازمین کے لیے اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کرتی رہیں گے۔
ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر جی ایم جمالی نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحافت کرنا مشکل کام ہے، یہاں صحافیوں کو جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پڑتے ہیں۔
کے یو جے کے سابق صدر و سینئر صحافی سید حسن عباس نے صحافیوں کو نیوز پیپر ایمپلائیز کنڈیشن آف سروس ایکٹ 1973 اورپاکستان الیکٹرونک میڈیا کرائم ایکٹ پیکا اوراس کے علاوہ پمپرا قوانین کے بارے میں بتایا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لیبر قوانین کی جاننے کے بارے میں اور قوانین کی جس طرح خلاف ورزی ہو رہی ہے اس کے بارے میں مکمل آگاہی دی. اور شرکاءکی جانب پو چھے گئے سوالوں کے جوابات دیے ۔ان کا کہنا تھاکہ زیادہ تر اخبارات وہ اسی قوانین کے تحت آتے ہیں اور ان کے تحت ان کو کام کرنے کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود زیادہ تر ایمپلائیز وہ قوانین کے نہ جاننے کی وجہ سے نہ تو اپنے کیسز کورٹ میں لے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو اس کا علم ہوتاہے تو اس لیے ان قوانین کو جاننا اور اس کے بعد اسی حساب سے کام کرنا بہت ضروری ہے ۔
سید حسن عباس نے یہ بھی کہا کہ الیکٹرونک میڈیا ، اور خاص طور پہ ڈیجیٹل میڈیا ،یا یوٹیوب پر بہت سارے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس میں خود صحافی وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں اس لیے کہ وہ ایسی سرخیاں لگاتے ہیں یا ایسی خبریں دیتے ہیں جس کی اطلاع اور تصدیق کے بارے میں خود ان کو معلوم نہیں ہوتا ہے ۔جسکی وجہ سے صحافت ایک طرح سے زوال پذیر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ دو سال کے دوران سندھ سمیت کراچی میں میڈیا ملازمین کے مختلف مسائل اور خصوصا خواتین کے مسائل کے حوالے سے 20سے زاید ورکشاپ کا انعقاد کرچکے ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ اس موقع پر انہوں نے کراچی پریس کلب کے سیکرٹری کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہاکہ کراچی پریس کلب نے میڈیا ملازمین اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کیا ہے اور ورکشاپ کے لیے تمام سہولتیں فراہم کی ہے ۔
شہر بانو نے شرکاءسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جو منصوبہ انٹرنیشنل فیڈر یشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے شروع کیا تھا وہ تقریبا سندھ کے سات اضلا ع میں صحافیوں کے حالات کار کے بارے میں باقاعدہ ایک سروے کیا گیا ہے جو کہ آئی ایف جے نے کروایا تھا ۔ان کاکہنا تھا کہ صحافیوں کے حالات کار کو جاننے کے لیے سروے کرنے کے بعد اس کی باقاعدہ رپورٹ بنی ہے اس سروے کی جو بھی فائنڈنگز تھی ان کے بارے میں شہر بانو نے شرکا کو بتایا کہ بہت سارے منصوبے ہیں خاص طور پر یہ منصوبے جو یہ پہلی بار پاکستان میں ایک ڈاکومنٹ کی صورت میں آرہا ہے ۔ اس میں صحافیوں کے حالات کار جس میں زیادہ تر جو مسائل ہیں ان میں تاخیر سے تنخواہ کا ملنا ،تنخواہ بہت کم ہونا، میڈیکل کی سہولت کا نہ ہو ، خواتین کے لیے واش روم اور خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت کا نہ ہونا اور اس کے علاوہ اندرون سندھ کے صحافیوں کے لیے کسی ا تنخواہ کانا ہونا اور کسی قسم کی سہولت کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
شہر بانو کا کہنا تھا کہ جو ریاستی یا غیر ریاستی عناصر ہیں جن کی وجہ سے صحافیوں کو مزیدمسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔حراس منٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عین وقت پر سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت سار ے صحافی وہ اس لیے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ ان کی آرگنائزیشن ان کی مدد نہیں کرتی ہیں ۔ پچھلے چند برسوں میں جس طرح صحافت پہ زوال آیا ہے اور جس طرح مختلف چینلز اور اخبارات کو بند کیا گیا ہے اس سے صحافتی تنظیمیں بھی بہت پریشان ہیں اور بہت سارے صحافیوں کے کیسزعدالت میں لے کر جا رہے ہیں لیکن صحافیوں میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ عدالت میں نہ تو کیس لے کر جاتے ہیں نہ ہی کورٹ میں اپنے کیسز کو جا کر دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سروے جو کہ کیا گیا ہے یہ پاکستان میں پہلی دفعہ کیا گیا امید ہے کہ آئندہ جب اس پر مزید کام ہوگا تو اس میں پاکستان بھر سے سروے کر کے صحافیوں کے حالات کار کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے لیے تمام صحافی تنظیمیں کوشاں ہیں ۔ صحافیوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ نا صرف صحافی یونین میں شامل ہو بلکہ اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے سامنے آئیں خاص طور پہ خواتین کو آگے آنا چاہیے ۔ پی ایف یو جے ہمیشہ سے صحافیوں کو اس طرح کی تربیت دے رہی ہے،لیکن ملازمت کے دوران تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی صحافتی مسائل زیادہ بڑھ رہے ہیں۔
شہر بانو کا کہنا تھا کہ لیبر قوانین کو جاننے کے لیے ایک دن کی ورکشاپ کافی نہیں ہے، اس لیے ہم آپ کی استعداد کار میں اضافہ کرنا جاری رکھیں گے، اور جب بھی آپ کو ہماری ضرورت ہو گی آپ کی مدد کے لیے دستیاب ہوں گے۔ آپ سب کو ایک معلوماتی اوردلچسپ ورکشاپ میں شرکت کرنے پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔لبنیٰ جرار نقوی نے شرکاءکو لیڈرشپ کے حوالے سے آگاہی فراہم کی۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو خاص طور پر لیڈرشپ میں آگے آنا چاہیے تاکہ پاکستان میں ایک مضبوط صحافت کا نظام قائم کیا جا سکے اور ایسی آوازوں کو بہتر بنایا جا سکے جو کے صحافیوں پر ہونے والے مظالم یا ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر نہ صرف آواز اٹھا سکیں گے بلکہ اس طرح وہ قوانین سے واقف ہوں گے اور اس کے لیے کوئی سد باب بھی کر سکے۔ورکشاپ کے اختتام پر کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب احمد،جی ایم جمالی، سید حسن عباس اور شہر بانو نے ورکشاپ کے شرکاء کو تعریفی اسناد پیش کیں۔