تحریر: علی انس گھانگھرو
جدید دور میں بھی آزاد صحافت ایک خواب اور چئلينج بنا ہوا ہے. دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سندھ سمیت پاکستان میں صحافت مشکل کام ہے جہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں کسی بھی وقت کسی بھی صحافی کو اغوا، قتل یا تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا حراساں کیا جا سکتا ہے. مگر اس کے باوجود صحافی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. سندھ کے ضلع خیرپور کے علاقے رانیپور کے صحافی اشتیاق احمد سوڈھڑ کو مسلحہ افراد نے گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کردیا. سندھ میں کسی صحافی کا یہ پہلا قتل نہیں بلکہ ہر سال ایک سے دو صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے. اور متعدد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے. سینکڑوں صحافیوں کو حراساں کرنے کے ساتھ جھوٹے مقدمات درج کئے جاتے ہیں. اشتیاق احمد کے قتل کے بعد ایس ایس پی خیرپور نے موقف اختیار کیا کہ وہ رانیپور میں صحافت کرتے تھے جہاں وہ رہائش پذیر تھے اسے قتل کردیا گیا ہے لھذا یہ صحافی کا قتل نہیں ہے. دوسری جانب 24 گھنٹوں کے دوران چارسدہ کے علاقے شبقدر میں ایکسپریس میڈیا گروپ میں کام کرنے والے صحافی افتخار احمد کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس گھر جا رہے تھے تو اسے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا. اشتیاق احمد کے بعد افتخار احمد کے قتل پر شکر ہے کہ ایس ایس پی چارسدہ نے یہ نہیں کہا کہ افتخار احمد مسجد نماز پڑھنے گئے تھے لہذی وہ صحافی نہی ہے. تیسرا واقعہ لاہور میں پیش آیا، دنیا نیوز میں پروگرام کرنے کے بعد واپس گھر جاتے ہوئے سینیئر صحافی اینکرپرسن ایاز امیر پر مسلحہ افراد نے آگے گاڑی دیکر روکا تشدد کا نشانہ بنایا اور موبائل ساتھ لے گئے. ایاز امیر نے تشدد والے واقعہ سے ایک دو روز قبل ایک پروگرام میں سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکمرانوں پر تنقید کی تھی. برحال ملک جہاں ایک طرف صحافیوں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے وہیں پر صحافیوں کو قتل بھی کیا جا رہا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے. پاکستان سب سے زیادہ سندھ وہ بدنصیب صوبہ ہے جہاں ہر سال دو سے تین صحافیوں کو قتل کیا جاتا ہے. گزشتہ 15 سالوں میں صرف سندھ میں سب سے زیادہ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ جھوٹے مقدمات درج کئے جاتے ہیں. جن میں دہشتگردی ایکٹ 7ATA, اغوا برائے تاوان، ریپ، چوری، ڈاکہ، بغاوت اور قتل جیسے مقدمات میں نامزد کیا جاتا ہے. سندھ میں گزشتہ 15 سالوں میں 200 سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں سکھر، لاڑکانہ، نوابشاهه ڈویژن سرفهرست ہے. ایک طرف سندھ میں جمہوریت کے دعوے داروں کی حکومت ہے تو وہیں پر صحافیوں کے حقوق کیلئے بھی آواز اٹھائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ پریس کلبوں اور یونین کو فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں. حقیقت کو دیکھا جائے تو جو صحافی سندھ میں کرپشن، نااہلی، لاقانونیت اور مسائل پر لکھتا ہے بات کرتا ہے وہی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے. سندھ میں 1999 ع سے اب تک 2022 ع تک جتنے بھی صحافی قتل ہوئے ہیں، تشدد کا نشانہ بنے ہیں یا مقدمات میں ملوث ہوئے، ان کے پاؤں نشانات حکمران جماعت کے وزیروں، مشیروں، عہدے داروں اور ذمہ داران کے ہاں جاتے ہیں. اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں مل سکی ہے. عالمی تنظیم سی پی جے کے مطابق روس یوکرین جنگ میں اس وقت کم از کم یوکرین میں کم از کم 12صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے. جن میں مزید 3 صحافیوں کے قتل کی تفتیش کی جارہی ہے. 14 مئی کو فلسطین میں الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو دوران رپورٹنگ فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا. ابو عاقلہ اس وقت ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھی جس وقت اسرائیلی سیہونی افواج فلسطینی عوام پر گولا باری میں مصروف تھی. پاکستان میں جو صحافی شہید ہوئے ہیں ان شہید سلیم شہزاد، خیرپور کے شہید مشتاق کھنڈ. نوشہرہ فیروز کاوش کے ٹی این نیوز کے عزیز میمن، جیو نیوز کے ولی خان بابر، کندھ کوٹ کے شہید شاھد سومرو، لیڈی جرنلسٹس عروج اقبال اور شاہنہ شاہین جن کو بھی قتل کیا گیا تھا۔ شہیدثاقب خان، عبد الحق بلوچ، رزاق گل، حاجی زئی، ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال ، سیف الرحمان، اسلم درانی، ایوب خٹک ،عمران شیخ، مکرم خان، عارف خان، موسی خیل، چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان، عامر نواب، راجہ اسد حمید، فضل وہاب، صلاح الدین، غلام رسول، عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی، لالہ حمید بلوچ۔ پڈعیدن کے صحافی علی شیر راجپر کو بھی یوم عالمی صحافت کے دن قتل کیا گیا تھا، سکھر کے علاقے صالح پٹ میں اجئے کمار لالوانی کو قتل کر دیا گیا تھا. فروری 2022 میں کراچی میں نجی چینل کے نیوز ڈائریکٹر اطہر متین کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا. 2014 ع میں بلوچستان میں جیکب آباد سندھ کے رہائشی ارشاد مستوئی کو آفس میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا. حق سچ لکھنے والے صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے قتل کردیا جاتا ہے. صحافیوں کی عالمی تنظیم کے مطابق گزشتہ سال 2021 ع میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 55 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا. گزشتہ 27 سالوں میں اب تک دنیا بھر میں 1500 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے. جن میں پاکستان، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک بھی شامل ہیں. جولائي 2022 ع کے ابتدائی ماہ میں پاکستان میں مزید دو صحافیوں کو قتل افسوسناک واقعہ ہے. جبکہ ایک اینکرپرسن سینیئر صحافی کو آفس کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے. صحافیوں پر تشدد کے واقعات قتل و غارت اور حراسان کرنے کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا آزاد صحافت، اور نڈر صحافیوں کیلئے دھرتی تنگ کردی جاتی ہے. صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے جب سالانہ صحافیوں کے قتل، تشدد اور مختلف طریقوں سے حراساں کرنے کے اعنگ کرکے زخمی کردیا گیا. اسلام آباد کے صحافی احمد نورانی پر تشدد کیا گیا اور بعد میں لاہور میں اس کی بیوی صحافی عنبرین فاطمہ اور بچوں تک حملہ کیا گیا تھا. صحافیوں کےلئے دنیا بھر میں کام کرنے والی تنظیم IFJ کے مطابق 146 ممالک میں ان کی 187 تنظیمیں ہیں، جن میں 600,000 سے زیادہ میڈیا ورکرز ان کے ممبر ہیں. پی ایف یو جے کے مطابق 2000 ع سے لیکر اب تک 120 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے. جبکہ پی پی ایف کے مطابق 75 صحافیوں کو دوران رپورٹنگ ڈیوٹی قتل کیا گیا ہے. بھارت 58 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے. افغانستان میں سے 90 سے زائد صحافی قتل ہوئے۔ بنگلاديش میں 30 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ روس اور یوکرین جنگ میں اس وقت 12 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے. جبکہ فلسطین میں ایک لیڈی رپورٹر خاتون کو دوران کوریج اسرائیلی فوج نے فائرنگ کرکے قتل کردیاداد و شمار سامنے آتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں.اسلام آباد میں اسد طور پر گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا. اسلام آباد میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں چھوڑا گیا. جیوز نیوز کے سینیئر اینکرپرسن حامد میر کو کراچی میں فائرنگ کرکے گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا. اللہ پاک نے نئی زندگی دی وہ آج زندہ اور سلامت ہیں. اسلام آباد میں پارک میں واک کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور سابق پیمرا چیئرمین ابصار عالم گو فائرنگ کرکے زخمی کیا گیا. صحافی سب کی آواز بن کر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں مگر صحافی کی کوئی آواز نہیں بنتا. جب سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو وہ صحافیوں کیلئے فرینڈلی دکھتی ہیں مگر جب حکومت می میں آجاتی ہیں تو وہ صحافیوں کی دشمن بن جاتی ہیں. صحافی تنقید کرتا ہے خلاف لکھتا ہے وہ مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے. بدلے میں وہ دشمنی مول لیتا ہے. مقدمات کو فیس کرتا ہے تشدد کا نشانہ بنتا ہے. اور قتل کردیا جاتا ہے. سندھ سمیت پاکستان میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں میڈیا ورکرز بیروزگاری کی چکی میں پیس رہے ہیں. صحافیوں معاشی طور پر بدترین مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں. حکومت کو چاہیے کہ صحافیوں کو بھی انسان سمجھیں، اور ان کے حقوق کیلئے قانونسازي کریں اور تحفظ فراهم کیا جائے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔۔