تحریر: شاہد رند
چندماہ قبل جب پی ڈی ایم کی تحریک شروع ہوئی تو اسوقت سے میرا یہ ماننا ہے کہ یہ تحریک عوام کیلئے شروع نہیں ہوئی اور اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا میری رائے میں اس تحریک کے نتیجے میں بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی اپنے غیر سیاسی مسائل یعنی کرپشن کے مقدمات میں ریلیف چاہتی ہیں جیسے جس جماعت کو تھوڑا ریلیف ملے گا وہ اپنی راہ لے گی اور ایسا ہی ہو رہا ہے رہ گئی بات مولانافضل الرحمان اور چھوٹی جماعتوں کی تو انکے ساتھ وہی نہ ہوجائے جو اے پی ڈی ایم کے دور میں ہوا تھا بحر حال اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں اسلام آباد کی آب و ہوا میں ایک ہفتہ گزار کر جب میں واپس آیا تو پتہ نہیں کیوں اسوقت میری چھٹی حس یہ کہہ رہی تھی جیسے پرانے زمانے کے وی سی آر میں کیسٹ روائینڈ ہونے جارہی ہے جیسے ملک میں ویسے ہی صورتحال ہو جیسے عدلیہ بحالی تحریک ،تحریک بحالی جمہوریت اور آزادی اظہار کی تحریک کے دن واپس لوٹ آئے ہوں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر وکلاء صحافی سیاسی کارکن سول سوسائٹی یکجا رہے ہیں کوئی ایک واقعہ ان سب فریقین کو ایک کشتی میں سوار کروادیگا اسلئے اب میں یہ سوچ رہا ہوں دس سے بارہ سال قبل جو کچھ دیکھا جو محسوس کیا اسے رقم کروں یہ مارچ دو ہزار نؤ کی بات ہے جب میں کراچی بیورو ایک ٹی وی چینل کارپورٹر تھا سید زوالفقار گیلانی اور عامر ضیاء نے بلا کر بتایا کہ دو دن بعد وکلاء کے لانگ مارچ کیلئے کراچی سے روانہ ہونگے اور جب تک یہ مارچ چلے گا آپ ایک ٹیم کیساتھ اسکے ساتھ ساتھ رہینگیاسوقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن آج جب کبھی سوچتا ہوں تو سید ذوالفقار گیلانی اور عامر ضیاء صاحب کو یاد کرکے دل سے دعا دیتا ہوں اس رپورٹنگ کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو کو ملا جو آج تک کام آرہا ہے اس دورے کی تفصیل پھر کبھی اسوقت اتنا بتانا مقصود ہے کہ اسوقت میڈیا وکلاء سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن اور ٹریڈ یونین اکھٹی ہو چکی تھیں جب میں اس یادگار کوریج میں مصروف تھا تو روز ایک نئی کہانی دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ سیاستدان ہوں یا وکلاء یا پھر صحافی انکی قیادت جو کچھ کرتی ہے اس میں اپنا مفاد مقدم ہوتا ہے اسکا فائدہ نہ عام آدمی اٹھاتا ہے نہ عام وکیل نہ عام صحافی اسکا فائدہ صرف خواص کوہوتا ہے کیونکہ ججز بحالی تحریک کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار ان وکلاء کو کیسے نوازتے رہتے تھے جنہوں نے انکی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا تھا سیاستدانوں نے دو ہزار آٹھ سے تاحال کیا کچھ کیا کچھ صحافیوں کی تنخواہیں لاکھوں سے کروڑوں کو چھونے لگیں نہ تو عام سیاسی کارکن کو اس تحریک کا فائدہ پہنچا نہ عام وکیل کو عدلیہ کا بہتر نظام مل سکا ا ور نہ عام صحافی کو اظہار رائے کی آزادی ملی اب پھر ملک میں ویسے ہی حالات ہیں ایک بار پھر حکومت اور عدلیہ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے معاملے پر ویسا ہی اختلاف ہے جیسا پرویز مشرف اور افتخار محمد چوہدری کے درمیان تھا اب کیا یہ اختلاف پھر ایک تحریک کی طرف جائیگا کیا سیاسی جماعتیں جو کرنا چاہ رہی تھیں وہ اس مقصد کے حصول میں ناکام ہوگئی ہیں تو کیا انہیں وکلا صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کاندھوں کی ضرورت ہے کیا یہ کاندھے سیاسی مشاورت پر فراہم ہوتے رہے ہیں یا ہونگے یا پھر کوئی واقعہ ایسے حالات پیدا کردیگا کہ حکومت مخالف تمام فریقین یکجا ہوجاکر تم مجھے ملا کہو میں تمہیں حاجی کہوں کی مصداق آگے بڑھینگے کیونکہ بظاہر سب کا ہدف ایک ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں انہیں کسی طرح اپنے حق میں پلٹا جائے پی ڈی ایم کی تحریک کے قیام کے وقت سے بھی پہلے میرے پاس یہ اطلاعات موجود تھیں کہ سیاسی جماعتیں ویسا ہی ماحول بنانا چاہتی ہیں جیسا ماحول دو ہزار سات میں تھا جہاں وکلاء سول سوسائٹی صحافی سب اسوقت کی حکومت کیخلاف تھے سیاسی قوتوں نے اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھایا جسکے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف مشہور زمانہ میثاق جمہوریت کے دستخط ہونے کے باوجود اسوقت کے سربراہ مملکت جنرل ر پرویز مشرف سے علیحدہ علیحدہ ریلیف لیکر وطن واپس آئے اسوقت بھی قریب آتی پی پی پی اور ن لیگ میں اچانک دوریاں بڑھ گئی تھیں اس بار بھی ویسا ہی ہورہا ہے چند روز قبل صحافی اسد طور پر تشدد کے واقعے کے بعد جسطرح صحافی رہنماؤں نے احتجاج کی کال دی میں اسے ایک روایتی احتجاج کے طور پر دیکھ رہا تھا لیکن وہاں سینیئر اینکرز نے جو تقاریر کیں اسے دیکھ اور سن کر لگا کہ گل ود گئی اے یہ احتجاج صرف ایک صحافی پر ہونے والے تشدد کے احتجاج سے آگے بڑھ رہا اور جو خطرہ مجھے کافی عرصے سے محسوس ہو رہا تھا چیزیں اسہی طرف جارہی ہیں صحافیوں میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ جو کچھ حامد میر عاصمہ شیرازی نے کہا وہ درست تھا کیوں کہ اسد طور کا دعوٰی ہے کہ ان پر حملہ کرنے والوں نے یہ تائثر دیا کہ انکا تعلق آئی ایس آئی سے ہے لیکن انکے اس تائثر کو ثابت کرنا آسان نہیں ہے جبکہ اسد طور کے موقف سے اختلاف رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ایک پری پلان حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ ہوا وہ اسد طور پر حملے اور دو اینکرکی تقاریر کو کسی بڑے کھیل کا ابتدائی راؤنڈ سمجھ رہے ہیں اور ان سب کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت کا ملکر ابصار عالم اور اسد طور سے اظہار یکجہتی کرنا بھی کچھ حیران کن نہیں لگتا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسی کسی صورتحال کی منتظر تھیں اور انہیں یہ موقع میسر آگیا ہے چاہے اسد طور پر ہونے والا حملہ کسی ادارے نے کیا ہو یا نہیں لیکن اس حملے اور اسکے بعد کے واقعات نے صورتحال کو گھمبیر بنا دیا ہے لیکن ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب کبھی کسی بھی تنظیم کا احتجاج ہوتا ہے تو وہاں تقاریر کیلئے منتخب عہدیداروں کو پلیٹ فارم دیا جاتا ہے جیسا کہ پی ایف یو جے کے احتجاج کے دوران ملک کے دیگر شہروں میں مقامی یونین اور پریس کلب عہدیداروں نے خطاب کئے انہوں نے کھلے لفظوں میں اسد طور پر حملے کی مذمت یہاں تک کہ کراچی یونین آف جرنلسٹ نے (آئی ایس آئی) کا نام استعمال نہیں لیا تاہم قومی ادارہ کہہ کر یہ مطالبہ کیا کہ بطور فریق اسد طور نے انکی طرف اشارے دیئے ہیں اسلئے انہیں اس پر وضاحت دینی چاہئے یا اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے لیکن اسلام آباد میں ہونے والی تقاریر کی فہرست کیسے مرتب ہوئی اور اسکے بعد جو صورتحا ل پیدا ہونے جارہی ہے اس میں آنے والے دن آسان نہیں ہونگے بحر حال جوش خطابت میں جو کچھ ہوا ہے اسکے کفارہ کیا ہوگا اسکا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا دوسری جانب حکومت ابھی تک راہیں تلاش کررہی ہے کہ کسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعلیٰ عہدے کی طرف بڑھتے قدم روکے جائیں تاحال انہیں کامیابی نہیں ملی ؟میری ناقص رائے یہی ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں کسی آؤٹ آف دی باکس حل کی طرف بڑھنا چاہتی ہیں جہاں وہ سامنے بھی نہ آئیں اور انکا مقصد بھی حاصل ہوجائے اسکے لئے انہیں وکلاء اور صحافیوں کے کاندھوں کی تلاش ہے میری ناقص رائے میں اگر پھر کوئی تحریک چلی تو اسکا فائدہ نہ تو عام سیاسی کارکن کو ہوگا نہ عام وکیل کو اور نہ عام صحافی کو بلکہ اب بھی اسکا فائدہ خواص کو ہی ہوگا۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔