تحریر: تنویر قیصر شاہد۔۔
دُنیا بھر کی صحافت میں AFPکو معتبر مقام حاصل ہے ۔ اِس عالمی خبر رساں ایجنسی کے اعتبار کا یہ عالم ہے کہ پچھلے189برسوں سے یہ ادارہ مسلسل مستند خبریں دُنیا کی نذر کررہا ہے ۔ اِس کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ دُنیا میں ڈھائی ہزار کے قریب صحافی اِس ادارے سے وابستہ ہیں ۔اے ایف پی سے جُڑے کئی صحافیوں کو دُنیا کے کئی پُروقار ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔
اِس عالمی معتبر خبر رساں ادارے(AFP) نے اپنی محتاط تحقیقات اور سروے کی بنیاد پر ایک گراف شایع کیا ہے ۔ اِس کے مطابق عالمی سطح پر 2024میں60 صحافیوں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں ۔ اِن پانچ درجن پُر عزم مگر مقتول صحافیوں کے بہے خون کے صدقے دُنیا تک انمول اور قیمتی خبریں پہنچ سکیں ۔
اے ایف پی کے مذکورہ گراف کے مطابق2024میں : غزہ( فلسطین ) میں20صحافی قتل و شہید کیے گئے ، پاکستان میں 7، بنگلہ دیش میں 5، سوڈان میں 4، میانمار میں3، میکسیکو میں 5، کولمبیا میں 2، یوکرائن میں2، لبنان میں2، رُوس ، انڈونیشیا، عراق ، چاڈ، شام، ترکمانستان، ہندوراس اور نیپال میں ایک ایک صحافی کی جان لی گئی ۔ مقتول صحافیوں کی اِس تعداد کی تصدیق عالمی سطح پر بروئے کار صحافتی ادارےRSF نے بھی کی ہے ۔ AFPنے مقتول صحافیوں کا یہ گراف12دسمبر2024 کو شایع کیا تھا۔ بعد از 12دسمبر ، عالمی سطح پر، کئی اور بھی صحافی جان سے گئے ہیں ۔ مثلاً 26دسمبر کو خبر آئی کہ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں 5صحافی مزید شہید کر دیے گئے ۔
مذکورہ بالا گراف کو دیکھا جائے تو یہ المناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ سال2024( جس کے خاتمے میں صرف ایک دن رہ گیا ہے )کے دوران صحافیوں کے قتل کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان دوسرے نمبر پر آیا ہے ۔ کیا ہمارے ہر قسم کے حکمران پاکستان کے ’’سیکنڈ‘‘ آنے پر فخر کر سکتے ہیں؟غزہ میں تو ظالم، قاہر اور جارح صہیونی اسرائیل نے 2 درجن سے زائد فلسطینی صحافیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔
اسرائیل ایک وحشی مملکت کے طور پر اُبھرا ہے ، ایسا ملک جس کے حکمرانوں میں انسانیت نام کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا ۔ جس نے غزہ کے صحافیوں کے ساتھ غزہ کے معصوم بچوں اور بے بس خواتین کا بھی بے دریغی اور بے شرمی سے خون بہایا ہے ۔
اسکاٹ لینڈ کے ممتاز ترین سیاستدان ، حمزہ یوسف، کے بقول:’’ غزہ میںاسرائیل کے ہاتھوں بربریت سے شہید ہونے والوں میں 60فیصد بچے اور خواتین ہیں ۔ اور غزہ میں موجود پانی96فیصد پینے کے قابل نہیں رہا ۔‘‘ اِس پس منظر میں باور کیا جا سکتا ہے کہ صہیونی اسرائیل نے سفاکی سے25 فلسطینی صحافیوں کو دانستہ شہید کیا ہے تاکہ دُنیا تک اُس کے ظلم اور وحشت کی خبریں ہی نہ پہنچ سکیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان2024میں صحافیوں کے قتل کے حوالے سے سیکنڈ کیوں آیا ہے ؟
کیا غزہ کی مانند پاکستان میں بھی صحافت کرنا مشکل ترین اور جان کو شدید خطرات میں ڈالنے کے مترادف ہو چکا ہے ؟ ہم بھی کیسی مٹّی سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے ایک جابر حکمران نے صحافیوں کی زبانوں پر قفل چڑھانے کی مذموم اور مہلک کوشش میں اُن کی پُشتیں کوڑوں کی ضربوں سے لہو لہان کر دی تھیں۔ ہم نے مگر معصومیت سے یہ سوچ کر دل کو تسلّی دے لی تھی کہ آمر و آئین شکن جنرل ضیاء الحق کے منظر سے ہٹنے کے بعد مملکتِ خداداد میں صحافیوں کو آزادیاں ملیں گی ، صحافیوں کو خبر رسانی کے لیے اپنی جانیں صلیبوں پر نہیں چڑھانا پڑیں گی ۔ مگر ہمارا کوئی خواب پورا نہیں ہو سکا ۔
نوبت ایں جا رسید کہ گزرتے رواں برس کے دوران اسلام آباد کے ایک معروف صحافی کی زبان بند کرنے کے لیے اُس پر منشیات کا کیس ڈال دیا گیا ۔ اور یہ کیس اُس حکومت نے ڈالا جس کے ایک اہم ترین مشیر پر بانی پی ٹی آئی کی حکومت میں کئی کلو منشیات کا کیس ڈال کر گرفتار کیا گیا تھا ۔ ہمارے ہاں ہر حکومت اور ہر دَور میں دعوے کیے گئے کہ ملک میں صحافیوں اور اظہارِ آزادی پر کوئی قدغن اور پابندی نہیں ہے ۔ اِس مبینہ آزادی کی مگر اصلیت و حقیقت کیا ہے، اِس سے وہ بھی بخوبی آگاہ ہیں جو یہ دعوے کررہے ہیں ۔
شاعر نے تو کہا تھا ’’بول کہ لَب آزاد ہیں تیرے‘‘ یہ بھی کہا کہ ’’بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے/ جسم و زباں کی موت سے پہلے/ بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے‘‘ لیکن شاعروں کی خوابناک دُنیا سے باہر سفاک اور حقیقی دُنیا میں سچ بولنے ، لکھنے اور دکھانے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔
لاتعداد اور غیر مرئی قوتیں متنوع زنجیریں لیے تیار کھڑی رہتی ہیں۔ صحافیوں کو پابہ زنجیر کرنے، اُن کی زبانیں بند کرنے، اُن کے قلم پر پہرے بٹھانے اور انھیں کال کوٹھڑی میں پہنچانے۔ AFPکا مذکورہ بالا گراف زبانِ حال میں یہی حقیقت بیان کررہا ہے ۔ حیرت ہے کہ 2024میں بھارت میں ایک بھی صحافی قتل نہیںہُوا، حالانکہ ہم تو بھارتی میڈیا کو طنزاً’’گودی میڈیا‘‘ کہتے ہیں : مودی اور بی جے پی کی گود میں بیٹھی بھارتی صحافت ۔ اے ایف پی کا یہ گراف ہمیں یہ شرمناک حقیقت بھی دکھاتا ہے کہ پاکستان سمیت عالمِ اسلام صحافیوں کے لیے کسقدر خطرناک ہے ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ کسی مسلمان ملک میں صحافت آزاد بھی ہے ؟ پاکستان کے ہمسائے میں دو اسلامی ملک لگتے ہیں۔ کیا انھیں آزاد صحافت کی حامل مملکتیں کہا جا سکتا ہے ؟2024میں مقتول صحافیوں کی مذکورہ بالا فہرست میں امریکا اور مغربی ممالک کا کوئی ایک صحافی شامل نہیں ہے ۔
تو کیا مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں قابلِ رشک حد تک صحافت آزاد ہے؟ وہاں اخبار نویسوں کو تمام مطلوب آزادیاں میسر ہیں؟ اب وہاں بھی سیاسی و اقتداری پانسہ پلٹنے کے بعد، صحافیوں کے لیے، ناقابلِ رشک حالات پیدا ہو رہے ہیں ۔
19 دسمبر 2024 کو امریکی میڈیا Huffington Post نے بتایا ہے : ’’ممتاز امریکی اخبارBoston Globeکے معزز اور شہرئہ آفاق ایڈیٹرMartin Baronنے سی این این کی مشہورِ عالم صحافی(کرسٹینا امان پور) کو انٹرویو دیتے ہُوئے انکشاف کیا ہے کہ نَو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اقتدار سنبھالتے ہی امریکی میڈیا اور امریکی صحافیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں ۔
ٹرمپ پہلے ہی ، صدارتی انتخابی کمپین کے دوران، اپنے نقاد امریکی ٹی وی CBSکو ’’مشکوک‘‘ بھی قرار دے چکے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اقتدار میں آکر اِس کا لائسنس بند کردُوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ خفیہ طور پر یہ بھی منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے ارب پتی دولتمند امریکی دوستوں سے مل کر اُن تمام امریکی اخبارات اور نجی ٹی ویوں کے اشتہارات بند کروا دیں گے جو اُن کی مخالفت کررہے ہیں ۔‘‘
یہ درست ہے کہ2024میں خوش قسمتی سے امریکا میں کوئی صحافی قتل نہیں ہُوا ۔ حالات وہاں بھی اب مگر نئی کروٹ لے رہے ہیں ۔ تو پھر کیا یہ کہا جائے کہ آزاد صحافت کے لیے دُنیا میں کہیں بھی حالات آدرشوں کے مطابق نہیں ہیں؟ یعنی جو بہت تھوڑی آزادیاں دستیاب ہیں، انھیں کے فریم ورک میں رہ کر جرنلزم ورک انجام دیا جائے ؟ہم پاکستانی صحافی ، تمام تر محدودات اور جبر کے باوصف، جب پاکستان کا عالمِ اسلام کی صحافت سے تقابل کرتے ہیں تو سچی بات یہ کہنی پڑتی ہے کہ پاکستان میں ہمیں پھر بھی بولنے، کہنے ، دکھانے اور لکھنے کی کچھ تو آزادیاں میسر ہیں ۔ حکومت ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بارے محتاط تنقید کرکے بہرحال پاکستانی صحافیوں کا کتھارسس ہورہا ہے ۔ ساتھ ہی زنجیریں تھامے کچھ غیر مرئی قوتیں بھی مگر تعاقب میں ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔