تحریر: انور سلطان
ملک کا اہم ترین ستون صحافت لیکن صحافت کرنے والے صحافیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ صحافیوں کی بڑی بڑی تنظیمیں تو موجود ہیں لیکن صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیئے جاتے ۔۔حال ہی میں صحافیوں کے ساتھ کئی واقعات رونما ہوئے جیسا کہ صحافیوں کو لوٹا گیا صحافیوں کو پولیس کی جانب سے اکثر و بیشتر انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے فوٹو گرافرز کے کیمرے توڑ دیئے جاتے ہیں رپورٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے نمائشی کارروائی دیکھنے کو ملتی ہے اور ہماری صحافتی تنظیمیں صرف اپنے ممبرز کے لیئے ہیں اگر وہ صحافی اس تنظیم کا ممبر نہیں ہے تو کوئی بھی اس صحافی کی آواز نہیں بنتا ۔صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیئے کام کرنے والی تمام تنظیموں کو ایک پیج پر آنا ہوگا ورنہ صحافی ایسے ہی دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہینگے ۔۔حال ہی میں ایک واقعہ جو کہ کورٹ رپورٹر ذیشان صلو کے ساتھ پیش آیا ذیشان صلو سینئر صحافی صلاح الدین صلو کے صاحب زادے ہیں ۔ذیشان صلو محمود آباد میں 8 سال سے کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے بجلی کا بل زیادہ آنے کی وجہ سے مالک مکان نے نہ صرف گھر سے نکال دیا بلکہ زدو کوب بھی کیا اور دھمکیاں بھی دی جب ذیشان صلو کی جانب سے پولیس کو اطلاع دی تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے پولیس کی جانب سے ذیشان صلو کو ہی ڈرایا اور دھمکایا جانے لگا اور کوئی سنوائی نہ ہوسکی ۔مالک مکان کے اثرورسوخ کی وجہ سے کورٹ رپورٹر ذیشان صلو کو گھر سے باہر نکال دیا گیا اور اس کے گھر کا سارا سامان ضبط کر لیا گیا کہ بل کلیئر کرو اور اپنا سامان لے جاؤں ۔ کورٹ رپورٹر ذیشان صلو اس وقت دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے ۔عنقریب ذیشان صلو کی بہن کی شادی متوقع تھی جس کا جہیز کا سامان بھی مالک مکان نے ضبط کر لیا ہے ۔ ذیشان صلو اپنے بچوں کے ساتھ کبھی ایک رشتے دار کے گھر تو کبھی کسی دوسرے رشتے دار کے گھر رہ رہا ہے اعلیٰ حکام کو فوری طور پر اس کا سد باب کرنا کرنا ہوگا ۔اس طرح کے کئی صحافی روز خبروں کی زینت بنتے ہیں کئی صحافی بے یارو مددگار پڑے ہیں صحافیوں کی فلاح و بہبود کی تنظیموں کو اس کے لیئے عملی اقدامات اٹھانے پڑینگے ۔(انور سلطان)۔۔