تحریر: محمد بلال غوری۔۔
ہم رجالانِ صحافت ہر خبر پر نظر رکھتے ہیں مگر خبر کی تلاش میں خود خبر بن جائیں تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ زندگی بھر ’’لفافہ صحافی ‘‘کے طعنے سنتے رہتے ہیں اوربعداز مرگ اہلخانہ کو کسی قسم کی مراعات تک میسر نہیں آتیں ۔نہ گریجویٹی ،نہ پنشن،نہ بچوں کی تعلیم کے لئےکوئی وظیفہ۔موت سے پہلے بھی قلمی مزدور کے اوقات اس قدر تلخ ہوتے ہیںکہ سفید پوشی کا بھرم رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔معاشی یا حکومتی دبائو کے سبب کب ادارے سے سیڑھیاں اُتر جانے کا کہہ دیا جائے یا پھر دفتر آنے پر معلوم ہوکہ ادارے کو مزید آپ کی خدمات درکار نہیں۔بے یقینی کی یہ تلوار محض عام ورکرز کے سروں پر نہیں لٹکتی رہتی بلکہ کم و بیش ہر صحافی کو زندگی بھر تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔لوگ چند بڑے اینکرز ، کالم نگاروں یا پھر درباری صحافیوں کے حالات سے دھوکہ کھا جاتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ 20ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں بمشکل گھر کا چولہا جلانے والا رپورٹر اور سب ایڈیٹر کسی بھی اخبار یا ٹی وی چینل کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور وہ بڑے صحافی جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہوتی ہیں، انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔میں نے کبھی ذاتی دُکھ بیان نہیں کئے مگر سوچا آج سیاسی موضوعات سے ہٹ کر اس صحافی کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے جو آپ سب کی آواز بنتا ہے ۔یوں تو کسی بھی دور میں صحافتی کارکنوں کی نہیں سنی گئی لیکن گزشتہ دو سال میں میڈیا سے وابستہ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب میڈیا کو درپیش معاشی بحران کی بات ہوتی ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں،کپتان نے تمہارے لفافے بند کردیئے ہیں ناں اسلئے تم تنقید کرتے رہتے ہو۔یہ سیاسی بونے جن کے دماغ پر تعصب کے کنٹوپ چڑھا دیئے جاتے ہیں اور وہ دولے شاہ کے چوہے بن جاتے ہیں ،انہیں معلوم نہیں کہ ’’لفافوں ـ‘‘کی ترسیل کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے اور کسی دور میں تعطل نہیں آیا ،البتہ ہر دور میں ان ’’لفافوں ‘‘پر لکھے نام بدل جاتے ہیں۔ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتیں سیاسی رشوت کے طور پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات دیا کرتی تھیں جو اب نہیں مل رہے، اس لئے ان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اشتہارات کے اجرا میں کوئی خاص کمی نہیں آئی اور پھرکوئی بھی بڑانیوز چینل یا اخبار مکمل طور پر سرکاری اشتہارات پر انحصار نہیں کرتا بلکہ 60فیصد اشتہارات نجی مارکیٹ سے حاصل کئے جاتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ،کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ،کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں ہورہا ،اس لئے پرائیویٹ مارکیٹ میں اشتہارات کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے۔
تنخواہوں اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث صحافتی کارکنوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔دیانتداری سے کام کرنے والے صحافیوں کو پہلے ہی شدید دبائو اور ذہنی تنائو کا سامنا ہوتا ہے ۔ہر طرف سے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔کبھی اندھی گولی نگل لیتی ہے ،کبھی نامعلوم افراد اغوا کرلیتے ہیں تو کبھی جان سے مارنے سے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔لیکن اگر معاشی بدحالی کا روگ بھی لگ جائے تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔گزشتہ دو سال کے دوران کتنے ہی صحافیوں نے حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرلی ۔چند روز پہلے ہی کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروڈیوسر معاذاختر نے موت کو گلے لگالیا کیونکہ اس کی والدہ فالج کا حملہ ہونے کے بعد 12سال سے وہیل چیئر پر تھیں اور وہ کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے سبب شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔خودکشی کرنے سے ایک دن پہلے معاذاختر نے ٹویٹ کی ’’انسان کی زندگی میں ہی اسے پوچھ لینا، یہ میت پر آکر رونے دھونے سے بہتر ہے۔‘‘مگر کوئی اس کی ہمت بڑھانے اور حوصلہ دینے نہ پہنچا تو اس نے بے حس دنیا سے منہ موڑ لیا۔لاہور میں بھی کئی صحافتی کارکن بے روزگاری یا واجبات کی عدم ادائیگی سے تنگ آکر خود کشی کر چکے ہیں۔کئی صحافی ایسے ہیں جو بظاہر تو طبعی موت مرے لیکن سچ یہ ہے کہ انہیں بھی معاشی پریشانیوں نے مار ڈالا۔المیہ یہی ہے کہ زندگی میں کوئی نہیں پوچھتا لیکن مرنے کے بعد تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔حکومتوں سے خیر خواہی کی توقع رکھنا عبث ہے،مسیحائی کا دم بھرنے والی صحافتی تنظیموں کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ذہنی تنائو کا شکار صحافیوں کی کونسلنگ کا بندوبست کیا جائے۔جوبے روزگار ہو جائیں ان کے لئے ماہانہ الائونس جاری ہو۔متبادل روزگار کے مواقع سے متعلق رہنمائی کی جائے اور موت کی صورت میں بچوں کے اخراجات کا انتظام کیا جائے۔کوئی ہے جو یہ ذمہ داری اُٹھا سکے؟ (بشکریہ جنگ)۔۔