تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
خواتین و حضرات ! صحافیوں کے ”دفن‘ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں اور جاری تحریکوں ، سفارتکاری اور معاشی سرگرمیوں پر بحث جاری ہے لیکن آج کل گلوبل پِنڈ کی بیٹھک میں میڈیاکارکنوں کے حالات اور تنظیمی امور زیر بحث ہیں جس کا نتیجہ اگرچہ واضح ہے لیکن کمیونٹی کے وسیع تر مفاد میں اسے مبہم رکھ کر بحث جاری رکھی ہے جس کا ایک مقصد کچھ ”کرداروں“ کو” سمت“ درست کرنے کا موقع دینا بھی ہوسکتا ہے ورنہ جیسے برسات کا موسم ہے اور اس موسم میں عموماً سیلاب آتے ہیں اور کچھ ایسے نشان بھی بہا کر لیتے جاتے ہیں جو کھوجی نے بڑی مشکل سے ڈھونڈکر شواہد کے طور پر لگائے ہوتے ہیں۔ گلوبل پںڈ کی بیٹھک کے شرکاء مجوزہ ”میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل “ اور میڈیا کارکنوں کی نمائندہ تنظیموں کے کردار کا جائزہ لیتے ہوتے کچھ کچھ پریشان ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیران ہیں کہ یہ تنظیمیں کرکیا رہی ہیں ؟ بیٹھک میں یہ تو طے ہوگیا کہ مارکیٹ میں میڈیا کارکنوں کی بہت سی دکانیں ہیں لیکن غالب اکثریتی ووٹوں اور باقاعدگی سے انتخابی عمل سے گذرنے والی تنظیم صرف وہی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس( پی ایف یو جے) ہے جس کے صدر کا تعلق کوئٹہ ، سیکرٹری کا تعلق اسلام آباد اور خازن کا لاہور سے ہے۔ جس الیکشن میں یہ عہدیدار کامیاب ہوئے ، میں خازن کی نشست پراس میں بُری طرح ہارا تھا، اس لئے اس الیکشن اور تنظیم کی حقیقی و قانونی حیثیت مسلمہ ہے ۔
بحث میں اب تک اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ اب تک سامنے آنے والے بیانات کے مطابق حکومتی دعوے کے برعکس صحافیوں نے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کی مزاحمت جاری ہے لیکن عجب صورتحال یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بعض تنظیموں نے اس کا ڈرافت پڑھا نہیں اور جنہوں نے پڑھا ہے انہوں نے اس کا شق وار جواب میڈیا پر لکھا نہیں کہ اس مجوزہ اتھارٹی کے قیام کی صورت میں اخباری کارکنوں کے مفادات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والا سنہ انیس سو تہتر کا نیوزپیپرزایمپلائیز (کنڈیشنز آف سرس) ایکٹ بھی دیگر قوانین کی طرح منسوخ ہوجائے گا ، یہ قانون منسوخ کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی وجہ ، دلیل یا جواز نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے ختم کیا جارہا ہے، جبکہ حکومت کو اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں اور نقصان صرف کارکنوں کو ہے تو پھر اسے ختم کرنے کی ضرورت کس کو ہے ؟ کس کو اعتماد میں لے کر خوش کرنے کے لئے ایسا کیا جارہا ہے ؟ بیٹھک میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ میڈیا کارکنوں اور خاص طور پر پی ایف یو جے نے حکومت کی اس مجوزہ منصوبہ بندی کے خلاف سڑکوں پر آنے کی کال کیوں نہیں دی ؟ کون کون کس کس کے ساتھ کس کس بنا پر ملا ہوا ؟ جبکہ یہ صحافت کی آزادی پر ایسا حملہ ہے جسے ناکام نہ بنانے کی صورت میں کارکن خدانخواستہ ہمیشہ کیلئے تاریک پاتال میں جا دفن ہونگے ، ( 49-(1) Repeal and Saving. -The Press Council Ordinance ,2002, The Press, newspaper, news Agencies and books Registration Ordinance,2002, Newspaper Employees (Conditions of Service) Act 1973, Pakistan Electronic Media Ordinance 2002 as amended by PEMRA Amendment Act 2007 and The Motion Pictures Ordinance 1979 are hereby repealed. All moveable and immovable assets, financial savings and liabilities of the of the above abolished organizations shall be transferred to PMDA. The Federal Government will retain only shortlisted officers and officials from the above organizations purely on merit, qualification and relevant experience for Pakistan Media Development Authority and the remaining will be placed in surplus pool. (2) Notwithstanding the repeal of said ordinances, acts, without prejudice to the provision of section 24 of the General Clauses Act, 1987, anything done, appointments made and the terms of appointment already fixed, notifications, rules and regulations made, licenses issued, forms prescribed, proceedings commenced, or action taken under that the said ordinances, acts shall, so far as they are not inconsistent with the provisions of this Ordinance, continue in force and be deemed to have been made, issued or taken under the provisions of this ordinance. )گلوبل پِنڈ کی بیٹھک میں اس پر بھی بحث کی جارہی کہ ممکنہ طور پر اگلے مہینے ستمبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں پی ایف یو جے کی ایس ای سی (مرکزی مجلس عاملہ) کا اجلاس ہونے جارہا ہے اور ان دنوں اس اجلاس کے حوالے جہاں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے سے بات اور صلاح مشورے جاری ہیں وہیں پر میڈیا کارکنوں نے تنظیم ’ آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائیز کنفیڈریشن ( ایپنک)‘ کو قانونی حیثیت بھی دینے پر کچھ ساتھیوں کو قائل کیا جارہا ہے اور خاص طور پر انہیں خاموش کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جنہیں ایپنک کے سازشی نام، نہاد الیکشن میں ایپنک کے آئین کی نفی کرتے ہوئے ووٹ کے حق سے محروم کرکے غیر قانونی ووٹنگ کروائی گئی تھی ۔ ان غیر قانونی انتخابات میں ملک کے دو انگریزی اخبارات کے کچھ لوگ خاص طور پر متحرک تھے ، عددی اعتبار سے چھوٹے یونٹوں کو اس میں بڑی فرعونیت سے نظرانداز کیا گیا ، ملک کے اہم یونٹ بھی اسی منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھا دئے گئے تھے لیکن پھر بھی اس تنظیم کو قانونی حیثیت دینے کے لئے مشورے اور منصوبہ بندی جاری ہے یہ بات حق بات کہنے والے کارکنوں کے لئے تشویش کا باعث ہے اور یونین کی درخشاں تاریخ اور روایات کی صریحاً نفی ہے اور ایک ایسا راستہ بنانا ہے جو کل کو کسی اور کو بھی اپنی مرضی کے ہائی سپیڈ شاہراہ بنانے کا موقع اور جواز فراہم کرنا ہے ،گلوبل پِنڈ کی بیٹھک کے شرکاءسمجھتے ہیں کہ تنظیم میں سبھی لوگون نے آنکھیں بند نہیں کررکھیں البتہ یہ الگ بات کی ان کی آواز میں دم کتنا ہوگا ؟ شرکاءکے تحفظات یہ بھی ہیں کہ تنظیموں میں اختلافات اس طرح بڑھا دیے جائیں کہ یہ باہم لڑتی ر ہیں ،حکومت یا کسی دوسرے فریق کے سامنے پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہونے کے قابل ہیں نہ رہیں اور حکومت اور اس کے حلیف بڑی آسانی سے کارکنوں کو حقوق فراہم کرنے والے تمام قوانین ختم کرڈالیں ، ، یہ ایسی سوچ ہے جسے کارکنوں کی نادانی پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے جبکہ حکومت اپنے تئیں یہ تصور کرچکی ہے کہ وہ اپنے تمام مقاصد میں کامیاب ہوچکی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ایمپلی ٹیشن ٹریبیونل فار نیوزپیپرز ایمپلائیز ( آٹی این اے) کا چیئرمین مقرر نہیں کیا گیا ؟ چیئرمین نہ ہونے کی وجہ سے کارکنوں کے مقدمات معلق پڑے ہیں ، اخبارات میں کارکنوں کی اجرت کی عدم ادائیگی اور کم ترین ادائیگی کا مسئلہ روز بہ روز گھمبیر ہوتا جارہا ہے؟ بیٹھک میں بحث جاری ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کے اختتام پر نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟اور نمائندہ تنظیم ایسا کیا قابلِ عمل راستہ اختیار کرتی ہے کہ کارکن دشمنی کا کامیابی سے مقابلہ کیا جاسکے ۔(محمد نواز طاہر)۔۔