تحریر: رضا حیدر۔۔
صحافت کو تباہ اور صحافیوں کو برباد کرنے کا اغاز تو ایوب خان کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ 1963 میں ایک ارڈیننس کے تحت اخبار اخبارات پہ سنسر شپ لگا کر صحافت کا گلا گھٹنے کی کوشش کی گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں سخت سنسرشپ عائد کی گئی۔ ہمیں یاد ہے کہ کاپی بننے کے بعد جب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں لے جایا جاتا تھا اس کو اپروف کرانے کے لیے۔ تو اس میں سے اکثر و بیشتر تو ادھا اخبار ہی نکال دیا جاتا تھا۔ کہ دوسری خبر لگائیں۔ اس وقت کے ہمارے صحافی رہنماؤں اور صحافتی تنظیموں قلم کی بندش پر احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرے اور بھوک ہڑتالیں کی گئیں۔ منہاج برنا نثار عثمانی عبدالحمید چھاپرا اور دیگر صحافیوں نے ان بندشوں کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ہمارے کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا سزائیں بھی ہوئیں۔ اور کوڑے بھی لگائے گئے۔ صحافیوں کو توڑنے کے لیے اور ان کی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے ضیاء الحق کے دور میں صحافی تنظیموں کے ٹکڑے کیے گئے۔ اس کے بعد تو صحافیوں پر زوال شروع ہو گیا۔ اسی دور میں لفافہ جنرلزم کا اغاز ہوا اخبار مالکان کو خریدا گیا سرکاری اشتہارات کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کے بدلے اپنی مرضی کی خبریں لگوائی جاتی تھی۔ اگر کوئی رپورٹر کسی ادارے کے خلاف کوئی اہم خبر دیتا تھا تو مالکان یہ کہہ کر نکلوا دیتے تھے کہ اس کا اشتہار ہمیں ملتا ہے۔ خود صحافیوں کی اپس کی چپخلش انا پرستی اور قیادت کی خوہش نے صحافی تنظیموں کو پے در پے تقسیم کر دیا ہے۔ اس وقت چار یا پانچ تنظیم بن گئی ہیں. جو قیادت کا دعوی کرتی ہیں. اور اس کا نقصان عام صحافی کو پہنچ رہا ہے. پہلے غیر ملکی مشنز کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو غیر ملکی دوروں پر بھی بھیجا جاتا تھا۔ ان دوروں پر بھی مالکان نے قبضہ کر لیا اور مالکان اپنی فیملیز کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جانے لگے۔ حکومتی دباؤ پر مالکان اخبارات نے اپنے صحافیوں پر دباؤ ڈالا اور اکثر و بیشتر تو نوکری سے بھی برخاست کیا جاتا رہا ہے. الیکٹرانک میڈیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا نے تو صحافیوں کی کمر توڑ دی. اس میں سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا وہ فوٹوگرافر تھا. پہلے پاکستان میں صرف دو نیوز ایجنسیاں ہوتی تھیں اے پی پی اور پی پی ائی. جو اخبارات کو خبریں اور تصاویر مہیا کرتے تھے. اور اس کی پیمنٹ اخبارات انہیں کیا کرتے تھے. 90 کی دہائی میں بے شمار ملکی اور غیر ملکی نیوز ایجنسیاں وجود میں ائیں۔ جو دھڑا دھڑ خبریں اور تصاویر ان لائن اخبارات کو دیتے رہتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اخبارات مالکان نے رپورٹرز اور فوٹوگرافروں کی تعداد کو کم کرنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بڑا اضافہ ہوا۔ اور بے شمار رپورٹر اور فوٹوگرافرز بے روزگار ہو گئے۔ خود میں اپنی مثال دوں 17 ستمبر 2018 کو میں اپنے افس نوائے وقت ڈیوٹی پر گیا. تو نوائے وقت کراچی کے اس وقت کے انچارج امین یوسف صاحب نے نوائے وقت کی منیجنگ ڈائریکٹر رمیزہ نظامی کی جانب سے ریٹائرمنٹ ارڈر کا لیٹر مجھے پکڑا دیا. اور کہا کہ اکاونٹس سے اپنا حساب کتاب لے لیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اج سات سال ہو رہے ہیں مجھے میرا فائنل سٹلمنٹ نہیں دیا گیا. ائی ٹی این ای میں میرا کیس ہے. لیکن اج تک میرا کیس سنا ہی نہیں گیا. میں کئی دفعہ لاہور اور اسلام اباد اپنے کیس کے سلسلے میں گیا. لیکن میری کوئی سنوائی نہیں ہوئی. ائی ٹی این ای کے چیئرمین شاہد محمود کھوکھر صاحب کو میں نے کئی دفعہ زبانی اور تحریری درخواست دی ہیں. لیکن افسوس میرے کیس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے. اور اب سوشل میڈیا نے تو اخباری صنعت کو ہی تباہ کر دیا ہے. بے شمار اخبارات بند ہو گئے ہیں.اکثر سننے میں اتا ہے کہ فلاں اخبار بند ہو گیا.اور اس کا سارا سٹاف برطرف کر دیا گیا. جو انتہائی تشویش کا باعث ہے.اس وقت بے شمار رپورٹرز اور فوٹوگرافرز بے روزگار ہیں۔(رضاحیدر)۔۔