sahafio ko jo kaha is par qaim hon parvez rasheed

صحافیوں کو جو کہا اس پر قائم ہوں، پرویز رشید

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کے دو سینئر رہنماؤں مریم نواز اور پرویز رشید کو صحافتی حلقوں اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ان کی ایک حالیہ ’آڈیو لیک‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تاہم مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اپنے موقف میں فون ٹیپ کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی بھی فرد کی نجی ٹیلیفونک گفتگو ریکارڈ کرنا جرم ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کے لیے بھی اگر آپ کو ایسا کرنا پڑے تو پہلے عدالت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

تنقید کا مرکز ان کی وہ گفتگو ہے جس میں سابق وزیرِ اطلاعات پرویز رشید چند صحافیوں کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا ہی پر سامنے آنے والی خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی آڈیو میں پرویز رشید ایک نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام سکور کارڈ کے چند مہمانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نازیبا الفاط میں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’۔۔۔ہم پر بٹھا دیے گئے ہیں۔اس سے قبل وہ ایک پینلسٹ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ جہاں ہمارے خلاف بات کرتے تھے وہیں وہ عمران خان کے خلاف بھی بات کرتے تھے لیکن چینل نے انھیں پروگرام سے ہٹا دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’یہ بہت زیادتی کی بات ہے۔ انھوں نے ان کا کالم بھی بند کر دیا ہے اور انھیں پروگرام سے بھی ہٹا دیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے اس بات کی تصدیق کی کہ سامنے آنے والی آڈیو میں آواز انہی کی ہے۔ صحافیوں کے حوالے سے گفتگو پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے الفاظ پر قائم ہیں۔یہ میری ایک نجی گفتگو تھی جس کو پبلک کیا گیا اور ایک نجی گفتگو میں اپنی رائے دینا کا میرا حق ہے۔‘ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جو الفاظ انھوں نے صحافیوں کے حوالے سے استعمال کیے ’کیا وہ ہمارے اردو محاورے کا حصہ نہیں ہیں؟وہ یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ جو الفاظ انھوں نے ’محاورتاً‘ استعمال کیے وہ ایک نجی گفتگو کا حصہ تھے۔ ’کیا ہم نجی گفتگو کے دوران ایسی باتیں نہیں کر لیتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں دو صحافیوں کی نجی گفتگو کو بھی پبلک کر دوں تو اس میں ایک دوسرے یا کسی کے بارے میں ایسی گفتگو موجود ہوگی۔پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ گفتگو سنہ 2016 کی ہے۔ تاہم انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ یہ گفتگو واٹس ایپ آڈیو کال پر ہوئی تھی یا فون پر۔’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم کے دفتر کے اندر فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ کہ کون یہ فون ٹیپ کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی بھی فرد کی نجی ٹیلیفونک گفتگو ریکارڈ کرنا جرم ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کے لیے بھی اگر آپ کو ایسا کرنا پڑے تو پہلے عدالت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔تاہم اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ‘یہ تو ریاست کے دیکھنے کا معاملہ ہے۔ اگر سڑک پر کوئی قتل ہو جائے تو کیا ریاست خود سے اس پر تحقیقات نہیں کرے گی۔

تاہم سینیئر صحافی ان کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پرویز رشید ایک پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، ایسے الفاظ استعمال کرنا انھیں زیب نہیں دیتا۔ ایسے الفاظ ان کے منہ سے اچھے نہیں لگے۔سہیل وڑائچ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ وہ الفاظ محاورتاً استعمال کیے گئے تھے۔ ان کے خیال میں ان الفاظ اور لہجے میں ’کسی کی بے عزتی اور توہین کرنے کا پہلو واضح تھا۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس بھی سابق وزیرِ اطلاعات کی دلیل سے متفق نہیں تھے۔ وہ خود بھی جیو نیوز کے اس پروگرام کا حصہ ہیں جس کے حوالے سے آڈیو لیک میں گفتگو ہوتی سنائی دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پرویز رشید کو گذشتہ کئی دہائیوں سے جانتے ہیں۔ ’اور اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے الفاظ (پر قائم) ہوں تو میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ خوش رہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر وہ خود کسی نجی گفتگو میں بھی کسی کے بارے میں بھی، چاہے وہ صحافی ہو یا نہ ہو، اس قسم کے الفاظ کبھی استعمال کرنا نہیں چاہیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ وہ ان کی نجی گفتگو تھی لیکن میرے خیال میں آپ نجی گفتگو میں بھی کسی کے حوالے سے اس طرح کے ہتک آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔مظہر عباس کے خیال میں یہ تاثر دینا غلط ہے کہ وہ محاورتاً بات کر رہے تھے جو کہ ’بے تکلف دوستوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کی جا رہی ہو۔ایک تو مریم نواز صاحبہ جماعت کی سینئر لیڈر ہیں، نواز شریف کی بیٹی ہیں اور پرویز رشید صاحب بھی اس وقت وزیر تھے تو ان کے درمیان ہونے والی گفتگو ایسی نہیں تھی جو دو بے تکلف دوستوں کے درمیان ہوتی ہے۔مظہر عباس کے خیال میں سابق وزیرِ اطلاعات کے لہجے سے ہتک آمیزی عیاں تھی۔ پاکستان میں صحافتی تنظیموں نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور سابق وزیرِ اطلاعات پرویز رشید سے ان گفتگو پر صحافیوں سے معذرت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

دوسری جانب مریم نواز نے اپنے نام سے لیک ہونے والی آڈیو کے بارے میں کہا ہے کہ اُنھیں اپنی نجی گفتگو پر معذرت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُن کا فون ٹیپ کرنے والوں کو اُن سے معذرت کرنی چاہیے۔جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز سے سوال ہوا کہ کیا وہ آڈیو ٹیپ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید سے گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ پر معذرت کرتی ہیں؟اس پر مریم نواز نے اس آڈیو سے متعلق کسی قسم کی تردید کیے بغیر کہا کہ پہلے اُن سے معذرت کی جائے کہ اُن کا فون کیوں ٹیپ کیا گیا۔اُنھوں نے کہا کہ یہ اُن کی ذاتی اور نجی گفتگو تھی جس پر وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔پہلے مجھ سے معذرت کی جائے کہ میرا فون کیوں ٹیپ کیا گیا۔ وہ ذاتی اور نجی گفتگو تھی، کیوں ریکارڈ کی گئی، ایک میڈیا چینل کو کیوں دی گئی اور آن ایئر کیا گیا۔اُنھوں نے کہا کہ ’پہلے تو مجھے اس بات کا جواب دیا جائے کہ ایک پاکستان کے شہری کی، ایک خاتون کی گفتگو کیوں ریکارڈ کی گئی۔جب اُن سے ایک اور سوال میں پوچھا گیا کہ کیا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ فون کال ریکارڈ کرنا ’جائز‘ تھا تو اس پر اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے وہ ریکارڈنگ نہیں کی۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو اور اُن کی مبینہ طور پر لیک ہونے والی آڈیو کا کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ اُن کا مؤقف تھا کہ اُن کی ٹیپ میں کسی کے خلاف سازش نہیں تھی۔اُنھوں نے ثاقب نثار کی مبینہ ٹیلیفون ریکارڈنگ لیک ہونے کے بارے میں کہا کہ ’یہ میرے کرنے سے نہیں ہوئیں، یہ ’اُدھر‘ سے آئی ہیں۔تاہم اُنھوں نے مزید وضاحت نہیں کی کہ ’اُدھر‘ سے اُن کی کیا مراد ہے۔مریم نواز نے کہا کہ ’میں نے کسی کی کوئی ٹیپ نہیں کی، چیزیں سامنے آ جاتی ہیں، قدرت کا اپنا طریقہ ہے۔(خصوصی رپورٹ)‘

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں