wzir e ittelat punjab ki sahafion se dhamki aamez rawaiyye ki muzammat

صحافیوں کی پے در پے اموات اور ہماری بے حسی

تحریر:قمرالزمان بھٹی ( صدر پنجاب یونین آف جرنلٹس)۔۔

نوجوان موت کسی صحافی کی ہو یا کسی پولیس ملازم کی یاکسی ڈاکٹر کی، جس گھر میں بھی ناگہانی وفات ہوتی ہے اس کا دکھ کہیں شدید تر اور مداوا سمجھ میں نہ آنے والا ہوتا یے۔عام طور پر ٹریڈ یونین لیڈرز اور کیمونٹی نمائندگان دکھ اور تکلیف کی یہ گھڑیاں بچھڑ جانے والے ساتھیوں کی فیملی کے ساتھ اظہار تعزیت کر کے۔نماز جنازہ میں شرکت کر کے یا رسم قل میں شریک ہو کر مرحومین سے اپنے دوستانہ تعلقات کا اظہار کرتے اور ان کی فیملی کے دکھ کو اپنا غم قرار دیتے ہوئے کرتے  ہیں ۔یہی رسم دنیا ہے ۔یہاں ہر آنے والے نے جانا ہے۔کوئی جوانی میں موت کا ذائقہ چکھ لیتا ہے تو کسی کو بڑھاپے میں اور کسی کو بچپن میں ہی اس سفر کا مسافر بننا پڑتا ہے ۔اپنے پچیس سالہ کیرئر میں مجھے بار ہا کیمونٹی کا نمائندہ بننے کا موقع ملا۔ لاہور پریس کلب کاممبر گورننگ باڈی بھی رہا۔ پنجاب اسمبلی پریس گیلری کا صدر بھی منتخب ہوا جبکہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا جنرل سیکرٹری بھی رہا لیکن ان پچیس سالوں میں پہلی بار پی یو جے کے صدر کی حثیت سے جس دکھ اور کرب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں وہ بیان سے باہرہے۔ہم نے بار ہا آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی لڑائیاں لاہور کی انہی سڑکوں پرلڑی ہیں ۔مال روڈ ، فیصل چوک اور پنجاب اسمبلی کے باہر ہمارے احتجاج ۔ریلیاں اوردھرنے ہر دور میں جاری رہے ہیں بھلے وہ دور آمریت ہو یا جمہوری حکمرانوں کی آمریت کے خلاف جدوجہد کا دور۔ہمارا یہ سفر کبھی روکا نہیں ۔ہم نے ویج ایورڈ کی لڑائی بھی کامیابی سے  لڑی ہے اور اب بھی مالکان اخبارت سے آٹھواں ویج ایورڈ منظور کروا چکے ہیں جبکہ متفقہ طور پر منظور کردہ ویج ایورڈ کا نوٹیفیکشن بھی اب جاری ہو چکا ہے۔لیکن اس سب جدوجہد کے باوجود ہماری مشکلیں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ہم سنتے تو تھے کہ دنیا میں صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس سے وابستہ صحافیوں کی عمریں کم ہوتی ہیں اور وہ ٹینشن سے منسلک امراض کا شکار ہو کر جلد موت کی وادیوں میں چلے ہیں مگر اس تلخ حقیقت کا جتنا ادراک گزشتہ چند ماہ میں ہوا ہے شائد کبھی نہیں ہوا۔صحافیوں میں بلڈ پریشر۔ شوگر ۔ہارٹ اٹیک۔ برین ہیمرج۔السر سمیت لاتعداد جان لیوا بیماریوں کا عود آنا معمولی بات ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں ہمارے ساتھی اور دنیا نیوز کے ادارے لاہور نیوز سے رپورٹر سجاد کاظمی نوکری سے فراغت کا پروانہ لے برین ہیمرج کا شکار ہوئے۔اسی طرح کراچی میں نیوز ون کے سینئر کرائم رپورٹر سید عرفان  چھ ماہ کی تنخواہ ادا نہ ہونے کا دکھ دل میں لئے ہارٹ اٹیک کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔یہی کچھ سانحہ ہمارے کیپٹل نیوز کے کیمرہ مین فیاض کے ساتھ ہوا جو چھ سات ماہ کی سیلری بروقت نہ ملنے کا دکھ لئے لقمہ اجل بن گیا۔اور اب دکھ اور تکلیف کی اسی کیفیت سے لاہور میں سٹی فورٹی ٹو کے ہمارے نوجوان کیمرہ میں رضوان ملک بھی اگلے جہاں کو سدھار گئے ہیں۔ 26 سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے کیا؟؟ یوں تو ہمارے بعض سٹی فورٹی ٹو کے دوست سوشل میڈیا پر ابھرنے والی ان آوازوں کے خلاف شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ” کچھ لوگ لاشوں کو بیچنے کی سیاست کر رہے ہیں۔رضوان ملک تو پہلے سے ہی دل کا مریض تھا وہ تو محسن نقوی جیسا شریف النفس مالک ہے جو رضوان ملک سے بھاری اور سخت کام نہیں لیتا تھا۔اس سے ہمیشہ نرم ڈیوٹی لی جاتی تھی۔لہذا یہ سیاست بازی اور لاش فروشی بند ہونی چاہیئے۔۔

بھئی مجھے بھی اپنے سٹی فورٹی ٹو میڈیا گروپ کے دوستوں سے اس بات پر اتفاق کرنے میں کوئی عار نہیں کہ محسن نقوی میں دیگر مالکان میڈیا کے مقابلے میں کافی خوبیاں بھی ہیں۔وہ اپنے ملازمین کو عمرہ۔حج۔ زیارات بھی کرواتا ہے۔پورا رمضان المبارک خوب افطاریاں بھی کرواتا ہے۔مگر  میرا سوال ہے کہ کیا محسن نقوی یہ سب کچھ کر کے بھی اگر دو سے تین ماہ تک اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہ نہیں دیتا تو کیا وہ اس قانون کے تحت مجرم کی صف میں نہیں کھڑا ہوتا کہ مزدور کو اس کے کام کا اجر(معاوضہ) پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا جانا ضروری ہے۔رضوان ملک بھلے بیمار تھا۔اور دل کا مریض تھا مگر کیا گزشتہ کچھ ماہ سے تنخواہ کی بروقت ادائیگی نہ ہونے سے رضوان ملک کی ٹینشن میں غیر معمولی اضافہ نہیں ہو رہا تھا؟؟ اور کیا یہ ٹینشن رضوان ملک کے ہارٹ اٹیک کا باعث نہیں بنی؟؟

ایسے میں مجھے بے حس مالکان سے تو کچھ نہیں کہنا۔انہیں تو اب اللہ ہی ہدایت دے سکتا ہے ۔سو اسی رب کائنات سے فریاد ہے  ایسے ظالم مالکان اور ظلم کے نظام سے ہمیں نجات دلا۔ لیکن اس موقع پر مجھے اپنے ساتھیوں سے صرف یہ کہنا ہے کہ ظلم کے اس دور میں خوامخواہ مالکان کے وکیل نہ بنا کریں۔ خبر تو ہماری شائع ہوتی نہیں لیکن اگر سوشل میڈیا پر کوئی ہلکی پھلکی تنقید مالکان پر ہوتی ہے تو اس کا دفاع ہمارے ساتھی نہ کریں۔اس کام کے لئے ان کے پاس کافی وسائل ہیں۔دوسرا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ میں دھڑے بندیوں کا حامی نہیں مگر اس حوالے سے جو بھی دھڑا آواز بلند کرئے تو اس کی اگر حمایت نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم مخالفت بھی نہ کریں بلکہ ان تنقیدی آوازوں کو مضبوط کریں اور ان کا ساتھ دیں۔جبکہ حکومت وقت سے صرف یہ کہنا ہے کہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے لئے جس قانون کا وعدہ وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان  گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے کر رہے ہیں اسے فوری طور پر ایوان سے منظور کروائیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔(قمرالزمان بھٹی، صدرپنجاب یونین آف جرنلٹس)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں