تحریر: مظہر جلالی
پاکستان میں صحافت ایک متنازعہ موضوع بنتا جارہا ہے، جہاں ایک طرف میڈیا کے نمائندگان اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہیں، وہیں دوسری طرف زوال پذیر انڈسٹری کی حقیقتیں بھی کثرت سے سامنے آ رہی ہیں۔ یہ صورتحال بنیادی طور پر چند بنیادی مسائل کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے، جن کا تجزیہ اس مضمون کے ذریعے کیا جائے گا۔
پاکستان میں صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ زندگی آسان نہیں ہے بلکہ انتہائی تلخ ہوگئی ہے۔ مختلف چینلز اور اخبارات کی جانب سے دی گئی سہولتیں نہ صرف غیر موزوں ہیں، تشدد، دھمکیاں، اور دیگر خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود، صحافی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب، میڈیا کے مالکان کی حالت بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ انہوں نے صحافت جیسے نوبل پیشے کو کاروبار بنا دیا ہے۔ وہ نہ صرف مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں بلکہ اپنے کارکنان کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کی جانب کسی قسم کی توجہ نہیں دی جا رہی۔ درحقیقت، مالکان کی خوشحالی اس وقت بیک وقت جاری ہے، جب کہ صحافی مختلف مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس تضاد کی وجہ سے عدم توازن پیدا ہو رہا ہے، جو کہ صحافتی اخلاقیات کو متاثر کر رہا ہے۔
اس سب کے درمیان، ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو مختلف اقسام کی سہولیات سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے۔ یہ صحافی نہ صرف مالی فوائد کے لحاظ سے خوشحال ہیں بلکہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عیش و عشرت میں گزرتا ہے۔ ان کی حیثیت میڈیا مارکیٹ میں بلکل مختلف ہے، جہاں وہ مالکان کے قریب ہوتے ہیں، اور ان کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر اہم ترین معلومات اور مواقع تک رسائی رکھتے ہیں اور اسی کی قیمت وصول کرتے ہیں، جبکہ عمومی صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ صحافت میں نہ صرف طبقاتی تقسیم بڑھ رہی ہے بلکہ اس سے میڈیا کی مؤثریت میں بھی کمی آ رہی ہے۔ جب ایک گروہ تمام سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے، تو یہ ایک غیر متوازن میڈیا ماحول کی تشکیل کر رہا ہے، جہاں معلومات کی درستگی اور سچائی متاثر ہورہی ہے۔
یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جا رہا۔ اگر کوئی صحافی کسی مسئلے کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس پر کارروائی کرنے کے بجائے، عموماً ان کے ساتھ مزید ظلم وستم کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے باعث صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ قلم کو اٹھانے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
دوسرے پہلوؤں میں، درمیانے درجے کے میڈیا نمائندگان کو اکثر بنیادی صحت کی سہولیات، سفری سہولیات، اور دیگر اہم عوامل کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی درست أدائیگی سے روک رہی ہے اور ان کے کام کی نوعیت کو متاثر کر رہی ہے۔
اگر یہ صورت حال قائم رہی تو پاکستان میں صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک صحافی بغیر مناسب حمایت، تحفظ، اور وسائل کے کیسے بہتر انداز میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے گا؟ ایسی صورتحال میں میڈیا کے میدان میں اگر تبدیلی نہ آئی تو ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں آزادی اظہار رائے، خبریں فراہم کرنے کی ذمہ داری، اور سچائی کے لیے جدوجہد کو گہرے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
یہ سب نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت کے مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کے تحفظ، صحت کی سہولیات، اور مالی حقوق کی یقینی اور مؤثر فراہمی ہی اس زوال پذیر انڈسٹری کو بچا سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس پُرخطر صورتحال کا مقابلہ کریں اور درست اقدامات کے ذریعے ایک آزادی اظہار رائے کی ثقافت کی تشکیل کریں، تاکہ پاکستان میں صحافت اپنی حقیقی حیثیت میں پروان چڑھ سکے۔(مظہر جلالی)۔۔