26 channels maafi ki khabar chalaenge

صحافیوں کی ہراسگی کا معاملہ، سپریم کورٹ میں آج سماعت ،،

سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملہ پر از خود نوٹس پر عملدرآمد روک دیا ۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کیا از خود نوٹس چیف جسٹس کے علاوہ بھی کوئی جج لے سکتا ہے ؟ اس معاملے کو دیکھیں گے ، از خود نوٹس لینے کے اختیار کے تعین کیلئے متعلقہ فریقوں کو سننا چاہتے ہیں،اٹارنی جنرل ،صدر سپریم کورٹ بار اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل معاملے پر عدالت کی معاونت کریں ۔  عدالت عظمیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیے گئے از خود نوٹس پر عملدرآمد روکتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 20 اگست 2021 کو صحافیوں کی درخواست پر ازخودنوٹس لیا اور ایک حکمنامہ جاری کیا ،دو رکنی بینچ کی طرف سے جس درخواست پر حکمنامہ دیا گیا وہ معاملہ زیر سماعت ہی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ دو رکنی بینچ نے 20 اگست کو از خود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اداروں اور سرکاری وکلا کو نوٹس جاری کرکے مذکورہ معاملہ 26 اگست 2021 کو اس بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا،26 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ دستیاب نہیں ،فی الوقت صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے اہم سوالات کو نہیں دیکھیں گے ، اصل سوال از خود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے ،نئے بینچ کی تشکیل تک صحافیوں کی ہراسگی کا معاملہ غیر موثر رہے گا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 20 اگست کے عدالتی حکمنامے پر فریقین صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق جوابات جمع کروائیں،صحافیوں کی درخواست پر شفاف انداز میں کارروائی چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ، کیا از خود نوٹس چیف جسٹس کے علاوہ بھی کوئی جج لے سکتا ہے ؟ اس معاملے کو دیکھیں گے ، بینچ زیرالتوا مقدمہ میں کسی نکتے پر ازخودنوٹس لے سکتا ہے ، بینچ عمومی طور پر چیف جسٹس کو ازخودنوٹس کی سفارش کرتے ہیں، موجودہ صورتحال میں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں تھا، دو رکنی بینچ نے براہ راست درخواست وصول کرکے از خود نوٹس لیا، بینچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے ،عدالت از خود نوٹس اور مکمل انصاف کا اختیار سسٹم کے تحت استعمال کرتی ہے ،ماضی میں بھی کچھ مقدمات پر معمول سے ہٹ کر ازخودنوٹس ہوئے ،چیف جسٹس کے علاوہ بینچ کی جانب سے از خود نوٹس کیلئے معاملہ تجویز کرنے کی روایت موجود ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کا کیس حساس ہے ، خوشی ہوئی انہوں نے رجوع کیا لیکن عدالت میں کیس دائر ہونے اور مقرر کرنے کا باقاعدہ طریقہ کار ہے ،اس بات پر افسوس ہے کہ صحافیوں نے عدلیہ پر بطور ادارہ بھروسا نہیں کیا،صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی نے کہا کہ تاثر ہے کہ عدلیہ میں تقسیم ہے ۔ اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں کوئی تقسیم نہیں،ججز کی مختلف نکات پر رائے مختلف ضرور ہوتی ہے ۔ آپکی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے ہم ایک ساتھ بیٹھ جائیں گے ۔درخواست گزار عبدالقیوم صدیقی کا نام عدالت میں بار بار پکارا گیا مگر وہ موجود نہیں تھے ،بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار نے عدلیہ کے ادارے پر اعتماد نہیں کیا اور اس طریقے سے کیس فائل کیا۔از خود نوٹس لینے کے اختیار کے تعین کیلئے متعلقہ فریقوں کوسننا چاہتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل ، صدر سپریم کورٹ بار اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کر کے آئندہ سماعت پر معاونت کیلئے طلب کر تے ہوئے معاملہ پر سماعت 25 اگست تک ملتوی کر دی تھی جس کی آج سماعت کی جائے گی۔۔۔واضح رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز پریس ایسو سی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے ملک بھر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف دائر آئینی د رخواست کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ،ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کیے تھے اور آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں