26 channels maafi ki khabar chalaenge

صحافیوں کی ہراسمنٹ، ازخود نوٹس کیس، پولیس رپورٹ جمع۔۔

سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف از خود نوٹس کے کیس پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد پولیس نے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حیدر وحید سے بھی ہم نے جواب طلب کیا تھا، وکیل حیدر وحید نے بتایا کہ میں نے بیان حلفی کے ساتھ جواب جمع کرا دیا ہے۔چیف جسٹس نے حیدر وحید سے استفسار کیا کہ پر اسرار بات کا پتا چلا کہ کس کے کہنے پر درخواست دائر کی گئی؟ وکیل حیدر وحید نے بتایا کہ میں نے جواب میں سب کچھ لکھ دیا ہے،اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے صحافیوں کے وکیل صلاح الدین نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے حیدر وحید کا جواب پڑھا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ ابھی تک مجھے حیدر وحید کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔اس پر چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو حیدر وحید کے جواب میں دلچسپی ہی نہیں ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ شریعت اپیلٹ بنچ ہونے کے باعث اس کیس کی سماعت ممکن نہیں۔عدالت نے گزشتہ حکمنامے پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ حکام کو ایک اور موقع دیتے ہوئے وقت کی قلت کے باعث سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔یاد رہے کہ 13 مئی کو سپریم کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت میں کہا تھا اگر حکومت مطیع اللہ جان کے کیس میں کچھ نہیں کرتی تو ایسا حکم دیں گے جو پسند نہیں آئے گا۔اس سے قبل سماعت پر سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے 2 اپریل تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔اس سے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ کیا ہوا، اس پر تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کی تشہیر پر ایف آئی اے نے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا تھا۔ایف آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی تشہیر میں ملوث افراد کے خلاف اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں اور 65 نوٹسز بھی دیے جا چکے ہیں، ان ان نوٹسز کی سماعت 30 جنوری کو ہو گی۔جن 65 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان میں 47 صحافی اور یوٹیوبرز بھی ہیں جن میں چند نامور صحافی بھی شامل ہیں۔جن 47 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ان میں اسد طور، پارس جہانزیب، اقرار الحسن، صدیق جان، مطیع اللہ، سید اکبر حسین، دانش قمر، ثاقب بشیر، سجاد علی خان، سید حیدر رضا مہدی، شاہین صہبائی، سرل المیڈا، رضوان احمد خان، عدیل راجا، ریاض الحق، صابر شاکر، سید احسان حسن نقوی، محمد فہیم اختر، ثاقب حسین، سہیل رشید، ناصر محمود شامل ہیں۔اس کے علاوہ وکیل جبران ناصر، احتشام نصیر، سبطین رضا، شیراز افضل، محمد افضل، محمد افضال بیلا، نصرین قدوائی، طیب اعجاز، انیلا منیر، ذیشان علی، حافظ شاکر محمود، ایاز احمد، طارق متین، سلمان سنگر، اظہر مشوانی، عدنان امل زیدی، عمران ریاض، اوریا مقبول جان، زاہد قیوم وڑائچ، عارف حمید بھٹی، نذر محمد چوہان، فضل جاوید، محمد اکرم، سارہ تاثیر اور متین حسنین کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم پر ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں و یوٹیوبرز کو نوٹس بھیج کر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دے دیا تھا۔30 جنوری کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز پر کارروائی مؤخر کرنے کے لیے اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں