تحریر: عمرچیمہ
پاکستان میں صحافیوں کے قاتل کھل کر کارروائیاں کرتے ہیں کیونکہ 96؍ فیصد معاملات میں فوجداری نظام انصاف مقتول صحافیوں کے معاملے میں انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو چکا ہے۔ صحافیوں کیلئے سندھ سب سے خطرناک صوبہ ہے جس کے بعد پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا نام آتا ہے۔
؍ 2نومبر کو منائے جانے والے صحافیوں کیخلاف جرائم کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ امپیونٹی 2022ء رپورٹ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ایک دہائی کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے صحافیوں کی سلامتی کے ایکشن پلان کی 10ویں سالگرہ کے موقع کی مناسبت سے تیار کیا گیا ہے۔پاکستان نے 2013ء میں اس پلان کی توثیق کی تھی اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے ایکٹ میں اس پلان کو شامل کیا جائے گا۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ صحافیوں کیخلاف کھل کر کیے جانے والے جرائم اب بدترین شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں اور کینیا میں ارشد شریف کی ہلاکت ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ صحافیوں کیخلاف جرائم پیشہ افراد کس قدر طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خراب تحقیقات کی وجہ سے پولیس کئی کیسز میں چالان پیش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے جس سے انصاف کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور پراسیکوشن کے خراب معیار کی وجہ سے کئی کیسز عدالتوں میں ٹرائل بھی پورا نہیں کر پاتے۔اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں قانون سازی موجود ہونے کے باوجود ملک کے صحافی غیر محفوظ ہیں۔دوہزار بارہ سے دوہزار اکیس تک 53 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور اس میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں 2014ء میں (13 صحافی) ہوئی ہیں۔ دوہزار بارہ کے بعد ایک بھی سال ایسا نہیں گزرا جب کوئی صحافی ہلاک نہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ نقصان پرنٹ میڈیا کا ہوا ہے جس کے اخبارات سے وابستہ 31؍ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے 23؍ صحافیوں، ڈیجیٹل میڈیا کے چار اور ریڈیو کے دو صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر دیکھیں تو سب سے زیادہ یعنی 30؍ فیصد ہلاکتیں سندھ میں ہوئی ہیں جہاں 2012ء سے 2022ء تک ہلاکتوں میں ہر تیسرا صحافی یہاں قتل ہوا ہے۔ پنجاب میں 26؍ فیصد بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 21 فیصد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔دو تہائی صحافیوں کو غیر ریاستی عناصر جیسا کہ عسکری گروپس، جرائم پیشہ گینگز، سیاسی جماعتوں کے مقامی با اثر افراد۔ زیادہ تر کیسز میں مقتول صحافیوں نے ملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے اپنے میڈیا ہائوسز کو آگاہ نہیں کیا، صرف 10؍ فیصد ہی ایسے تھے جنہوں نے آگاہ کیا۔جہاں تک میڈیا تنظیموں یا صحافتی اداروں کی بات ہے تو اپنے مقتول ساتھیوں کے کیسز میں یہ اول فریق نہیں بنتیں۔۔(بشکریہ جنگ)