تحریر۔ حماد رضا
پاکستان کا شمار بد قسمتی سے صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ترین اور غیر محفوظ ممالک میں کیا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سینکڑوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اقوامِ متحدہ سال دو ہزار تیرہ سے سچ کا پردہ چاک کرنے والے صحافیوں کے خلاف جرائم سے روک تھام کا عالمی دن منا رہی ہے یہ دن ہر سال دو نومبر کو منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کی ابتدا سال دو ہزار تیرہ میں دو فرانسیسی صحافیوں کی ہلاکت کے بعد ہوئ جنہیں مالی میں قتل کر دیا گیا تھا اس دن کو عالمی سطح پر مناننے کا بنیادی مقصد صحافیوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے آواز بلند کرنا اور ان کے خلاف جرم سرزد کرنے والے مجرموں کو سزا دلوانا ہے یہ صورتِ حال انتہائ تشویشناک ہے کہ صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے قتل کے مقدمات میں ہر دس میں سے صرف ایک ہی مجرم کو سزا مل پاتی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلی ایک دہائ کے دوران پوری دنیا میں آٹھ سو سے زائد صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں جن میں پاکستانی صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے صرف سال دو ہزار انیس میں ہی سات صحافیوں کو وطنِ عزیز میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کر دیا گیا پاکستان میں کوئ بھی پارٹی جو اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ صحافیوں کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے اور دعوے کرتے وقت اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ کل کو اگر ہم برسرِ اقتدار آ گیے تو ہمیں ان دعووں کو پورا بھی کرنا پڑے گا لیکن وہ ہی پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو اسے صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے صحافی بلاشبہ ایک مظلوم کمیونٹی ہے پا کستان میں اسے دو طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک طرف تو یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ کہیں لوگوں تک سچ پہنچاتے پہنچاتے اس کی بھاری قیمت نا ادا کرنی پڑ جاۓ اور دوسری طرف روزگار چھن جانے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے یعنی نا جان محفوظ اور نا ہی روزگار محفوظ اور اکثر یہ دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ جب بھی کسی صحافی کے خلاف کوئ جرم سرزد ہوتا ہے تو میڈیا ہاؤسسز تک اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اس قسم کی حرکات کا مظاہرہ عموماً چھوٹے صحافیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور بعض دفعہ بڑے صحافی بھی اس کی زد سے نہیں بچتے پاکستان میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے خلاف جرائم سر زد ہوۓ لیکن ملزموں کو قانون کے کٹہرے میں نا لایا جا سکا ایسی صورت حال میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استشنی ٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے انگریزی میں امپیونیٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اس امپیونیٹی یا استشنیٰ کی مثال سال دو ہزار چودہ میں حامد میر پر کیے جانے والے حملے کی صورت میں دی جا سکتی ہے حامد میر پر جان لیوا حملے کے بعد ایک کمیشن تشکیل دے دیا گیا لیکن نا ہی حملہ آوروں کا کوئ تعین ہو سکا اور نا ہی کسی کو سزا دی جا سکی پاکستان میں دو ہزار گیارہ میں جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کا قتل بھی پاکستانی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا ولی خان بابر کے قتل کا الزام صولت مرزا پر لگا جس پر اور بھی قتلوں کے الزامات تھے صولت مرزا دو ہزار پندرہ میں تختہ دار پر چڑھ کر اپنے انجام سے ہمکنار ہوا اگر اسی طرح مجرموں کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہے تو صحافیوں کے خلاف سر زد ہونے والے جرائم میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے یہاں بھی شائد سزا اس لیے ملی کے ولی خان بابر کا ایک طاقتور میڈیا گروپ سے تعلق تھا صحافیوں کی زندگیاں محفوظ بنانے اور ان کے قاتلوں کو تختہ دار پر لانے کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور پاکستان کی فضا کو صحافیوں کے لیے سازگار بنانا ہو گا صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کی بھی اشد ضرورت ہے صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے اگر چوتھے ستون کو مظبوط نا کیا گیا تو ریاست عدم توازن کا شکار رہے گی ۔(سید حماد رضا)۔۔