تحریر : محمد امنان
میڈیا میں نوکری ایک ایسی آزمائش ہے جس میں آگے کنواں پیچھے کھائی ہے۔۔عمران خان حکومت کو لانے میں بھرپور کردار ادا کرنے والے میڈیا پر تاریخی زوال اسی دورِ حکومت میں آیا۔۔کچھ عقل کے بونے خوامخواہ کے بیر میں میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے کرتے ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ ہر شعبے کی طرح یہاں بھی بڑی مچھلیاں ہیں،پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں،اس خرابی کے دور میں بھی انہی اینکرز اور صحافیوں کے وارے نیارے ہیں جنکے ڈانڈے حکومتی شخصیات سے ہیں یا وہ میڈیا مالکان سے پرافٹ شیئرنگ بیس پہ معاہدہ کرتے ہیں۔عام صحافی یہ باریکیاں جانتا ہے نہ سیاست،وہ کام سے محبت دکھا کے جان لگا کے بھی نکال دیا جاتا ہے یا اسکی تنخواہ اسکی قابلیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اس فیلڈ کے بہت سے اسرار و رموز ہیں جن پہ طویل بحث کی جاسکتی ہے مگر لاحاصل۔۔۔
تحریر کا مقصد صرف میڈیا سٹوڈنٹس اور عام لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا سے عمران خان کی حکومت کے وارد ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں برطرفیاں کی گئیں،مگر اس طوفان میں بھی “بڑے ہاتھی” محفوظ ہی رہے،تو میڈیا کی بربادی پہ خوشی منانے کو جواز دینے والے یہ اچھی طرح جان لیں کہ دفاتر میں نائب قاصد،ٹی بوائے،سٹوڈیو بوائے،ڈرائیورز،سکرپٹ رائٹرز،مانیٹرنگ پرسنلز،این ایل ایز،کیمرہ مین،ڈی ایس این جی ڈرائیورز ، رپورٹرز جیسے کم اجرتی مزدور جو پہلے ادوار میں پھر دو وقت کی روٹی کما لیتے تھے،آج فاقوں ،قرض اور خیرات پہ آچکے ہیں۔۔
سفید پوش زبان نہیں کھولتے اور ہر انسان گھٹن زدہ ماحول میں زندہ لاش بن کر “ آپشنز “کے انتظار میں ہے جسکا فی الحال دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ مالکان اپنے سٹاف کو تنخواہ سے محروم رکھ کر حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں اور یونین لیڈرز حالات کے ماروں کا سہارا لے کر اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ صد افسوس اس بات پر کہ میڈیا کے حالات دل پہ لے کے مرنے والے کی خبر بھی میڈیا پہ نہیں چلتی،اس سے زیادہ اس خانہ خراب کی بدحالی کا ثبوت کیا ہوگا( یہ تحریر سیدہ عائشہ ناز نامی ایک سوشل میڈیا صارف کی ہے )
اس بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہوئے ان افراد سے کچھ سوال پوچھنا چاہوں گا جو بغض میڈیا میں عمران خان کی محبت میں اندھے ہو کر صحافی ورکروں کی اموات پہ میڈیا ورکرز کو کوئی اور کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، اگر صحافی کوئی اور کام کرنا شروع کر دیں تو یہ جو ملک کو باپ کا دسترخوان سمجھ کر نوچ کھا رہے ہیں پرانے ہیں یا نئے ہیں ان سے سوال کر لو گے ؟؟
عوام کے ہجوم اور ریوڑ سے سوال ہے کہ یہ جو روزانہ مہنگائیوں کا رونا روتے ہو؟؟ احتجاج ریکارڈ کروانے یا اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لئے صحافیوں کے نمبر مانگتے پھرتے ہو خود سے کچھ بول یا سوچ پاو گے؟؟ مانا اس فیلڈ میں بھی کالی نیلی پیلی بھیڑیں موجود ہیں لیکن عرض یہ ہے عام صحافی جو پندرہ بیس یا حد تیس ہزار روپے کے لئے اپنوں سے دور رہتا ہے تم لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے موسم کی سختیاں جھیلتا ہے یہ اس میدان سے چلا گیا تو کیا اپنے نمائندوں یا وزرا کے گریبان پکڑ کر سوال کر سکو گے؟؟ اتنی ہمت ہے تم لوگوں میں؟؟؟؟
کچھ بات عمران خان کے پالتو برگرز کی بھی کرنا چاہوں گا جو تحریک انصاف کے آفیشنل پیجز پر عام صحافیوں کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ جی صحافی جھوٹ دکھاتے ہیں یہ اپنی مرضی سے خبر کو رنگ دیتے ہیں مان لیا ایسا ہو گا آپ سب لوگ سچے ہیں صحافی جو اس ملک میں ہیں اچھوت، انکی طرح ایک مہینہ بغیر تنخواہ کے گذار لو گے یا اپنی خواہشات کو دبا کر صرف خبر پہنچانے سے عشق کر سکو گے ؟؟؟ نہیں ہو پائے گا یہ صرف عام ورکر صحافی کرنا جانتا ہے۔۔پچھلی حکومتیں ظالم تھیں کرپٹ تھیں مکار تھیں لیکن اس دودھ کی دھلی حکومت نے آتے ہی اپنی اوقات دکھا دی سب سے پہلے میڈیا ورکرز کے گلوں پر پاوں رکھے اور نوکریاں کھا گئے اسی حکومت کا بویا ہم کاٹ رہے ہیں کہ ہمارے صحافی بھائی دل کی بیماریوں سے مر رہے ہیں ، ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور حکومت کے کچھ وزرا کہہ رہے ہیں کہ جی آٹھواں ویج بورڈ ایوارڈ منظور کر لیا گیا نوٹیفکیشن کروا دیا فلانا ڈھمکانا۔۔جو ہزاروں بے روزگار ہوئے ہیں انکی نوکریاں واپس کیسے آئیں گی ؟؟ مان لیا صحافی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کیا تم لوگ جو میڈیا پہ آوازیں کستے ہو ایک عام ورکر صحافی کی طرح اپنے اپنوں سے دور رہ کر دربدر کی ٹھوکریں کھا کر حقائق دکھانے کی جستجو میں خالی پیٹ سڑکوں پر گھوم سکتے ہو؟؟؟
صحافی ہونا ایک وقت میں بڑے وقار کی علامت تھا لیکن آجکل بزنس مینوں اور حکومتی دلالوں نے مل ملا کر اس پیشے کا چہرہ نا صرف مسخ کر دیا ہے بلکہ اس پیشے کو اپنا خون پلانے والوں کو فقیروں سے بھی بد تر حالات میں پہنچا دیا ہے۔۔
میں حکومت اور اسکے حواریوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ آئیں اور جس مرضی فورم یا جس مرضی ادارے سے میری تحقیقات کروائیں میرے پاس سولہ سالہ تعلیمی قابلیت کا سرٹیفیکیٹ ہے چند دنوں میں ایم فل بھی مکمل ہو جائے گا ، میری تحقیقات اسلئیے کریں کہ صحافیوں کو بلیک میلر اور کرپٹ کہا جاتا ہے میں چیلنج کرتا ہوں خود کو پیش کرتا ہوں احتساب کے لئے۔۔
اگر ثابت ہوا کہ میں کرپٹ ہوں یا مرنے والے کیمرہ مین فیاض اور رضوان ملک کرپٹ تھے تو میں سزائے موت بھی قبول کر لوں گا لیکن اگر میں سچا ثابت ہوا تو کیا عمران خان یا وہ ٹٹ پنجئیے جو صحافیوں اور میڈیا کی حالت پے بغلیں بجاتے ہیں غیرت کی گولی کھا کے مرنے کو تیار ہیں؟؟؟
ایک صحافی کا دکھ کوئی اسلئیے بھی نئیں سمجھ پاتا کیونکہ صحافی اپنے کام کی بنا پر اس پورے سماج سے دشمنی مول لیتا ہے سچ دکھاتے ہیں نا تبھی بھونکنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے ملک کے کیا حالات ہیں کسی کو فکر نہیں ہاں البتہ صحافی مر رہے ہیں اس پر لوگ مشورے دیتے ہیں کہ فیلڈ چھوڑ کر کچھ اور کر لو بھئی اور کیا بچا ہے یہاں ؟؟؟؟؟
اور دوسری بات جو میں اور مجھ جیسے صحافی کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ بھئی مرنا ہی مقدر ہے تو ہم لڑتے ہوئے مریں گے اس ظالم نظام اور حکومت پہ لعنت بھیج کر مریں گے لیکن میدان خالی نہیں چھوڑیں گے ، بولنا نہیں چھوڑیں گے کب تک اور کہاں تک آوازیں دبانے کی کوشش کرو گے؟؟؟
بڑے لمبے چوڑے صحافی جن کی لاکھوں میں تنخواہیں ہیں وہ اس حکومت میں اسلئیے بچے ہوئے ہیں کہ وہ مقتدر حلقوں حکومت یا مالکان کی پالیسیوں پہ تلوے چاٹنے میں مگن ہیں اسلئیے انکی نوکریوں کو مسلہ نہیں ہے مسلہ تو عام ورکر صحافی کا ہے جو چینل کا بوجھ اٹھاتے ہوئے آخر کار مر جاتا ہے، اور صحافی لیڈران ان لاشوں پہ اپنی سیاست چمکانے اور جھولیاں بھرنے کا انتظام کرنے کو گدھوں کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں
دو دو منہ والے مالکان دکھاوے کے حج عمرہ اور زیارات کے ٹوور کروا سکتے ہیں مگر کام پہ آئے مزدور صحافی کی اجرت نہیں دے سکتے محرم اور ربعی الاول میں نذر نیازیں چڑھائیں گے کوئی ان سے پوچھے کہ جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر کے یہ نذر نیازیں دے رہے ہو یہ کہاں پہ قبول ہو رہی ہیں
تحریر لمبی ہو رہی ہے گالیاں بمشکل ٹائپ کرنے سے رکا ہوں میرے لوگ مر رہے ہیں میں بھی مر جاوں گا لیکن اس ہجوم اور نام نہاد مسلط کردہ حکومت کے منہ پہ تمانچے مارتا رہوں گا میدان نہیں چھوڑوں گا صحافی ہوں قلم میرا ہتھیار ہے اور اسے سچ کے گولہ باورد سے بھر کے وقت کے یزیدوں کی طرف چلاتا رہوں گا(محمد امنان)۔۔