تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
ملک بھر میں صحافیوں کی تنظیموں اور خاص طور پر کراچی لاہور اور راولپنڈ ی، اسلام آباد (نیشنل ) پریس کلب کے سالانہ انتخابات کا دوردورہ ہے ۔ کون کون اور کیوں الیکشن لڑ رہا ہے ، سبھی جانتے ہیں ، ان میں کون کیا ہے ؟یہ سبھی جانتے ہیں ؟ کسی ماضی اور حال کسی سے بھی چھپا نہیں ہے ، یہ الیکشن بھی بدقسمتی سے اُسی طرح بلدیاتی الیکشن جیسے ہوگئے ہیں جیسے وکلاءتنظیموں نے بنا لئے ہیں ، حالانکہ یہی الیکشن ماضی قریب میں کریڈیبلٹی پر ہوا کرتے تھے جن میں پیسے کے استعمال کا عمل دخل نہیں تھا بلکہ یہ قابلِ نفرت عمل تھا۔قدریں اس حد تک تبدیل ہوگئی ہیں ہیں کہ انٹیلی جنیشیا کہلانے والے خود انتخابی عمل کو بلدیاتی الیکشن سے تشبہییہ دیتے ہیں اور ہلہ گلہ کرنے کے حق میں باقاعدہ دلائل دیتے ہیں ۔ انتخابی عمل میں مخالف امیدوار کے کردار پر بھی خوب باتیں کی جاتی ہیں ، جن کے سامنے کی جاتی ہیں عام طور پر وہ ان باتوں سے ننانوے فیصد پہلے ہی آگاہ ہوتے ہیں جبکہ ایسی باتوں اور ان کی وضاحت کے لئے جنرل کونسل کا فورم موجود ہوتا ہے اور کوئی الیکشن بھی جنرل کونسل کے اجلاس کے بغیر نہیں ہوتا بلکہ اگر سنہ انیس سو پچاس میں بنایا جانے والا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنللسٹس( پی ایف یو جے) کا اوریجنل آئین دیکھا جائے تو اس میں الیکشن کو بھی جنرل کونسل ہی قراردیا گیا ہے یعنی اس جنرل کونسل سے مراد ہے کہ جنرل کونسل کا اجلاس بھی جاری رہے اور پولنگ کا عمل بھی جاری رہے ، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ووٹرز کی تعداد بہت کم تھی اور امیدوار برسات کے بعد یدا ہونے والے خود رو پودے نہیں تھے ، اب ووٹرز کی تعداد ہزاروں میں ہوگئی ہے اور جنرل کونسل جاری رکھ رکر پولنگ کا عمل کا ساتھ چلانا انتظامی طور پر ناممکن ہو چکا ہے ، بہر حال ایک دوسرے کے بارے میں اچھی یا الزامات کی بات جنرل کونسل میں ہی ہونا چاہئے ، سوشل میڈیا اس کا فورم نہیں ہے ،۔ یہ درست ہے کہ الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت کا مقصد چودراہٹ ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر کوئی چودھری بن کر کمیونٹی کو نقصان ہی پہنچائے گا کوئی کسی وقت بھی سُدھر سکتا ہے ، اور اگر اس کا امکان دکھائی نہ دے رہا ہو تو آپ کے ضمیر کو آپ کے سوا مجبور کون کرسکتا ہے کہ ایسے امیدوار کو ووٹ ضرور دینا ہے ، آپ ووت جس امیدوار کو مرضی دیں ، جس کے مقابلے میں چاہیں الیکشن لڑیں لیکن بیچ چوراہے اپنے یا کسی دوسرے کے کپڑے مت نچوڑیں ، اگر آپ صرف” معزز ممبر“ نہیں بلکہ حقیقی صحافی ممبر ہیں تو آپ سے یہ اُمید ضرور کی جاستی ہے کہ آپ اپنے شعور کا درست استعمال کریں گے ، جہاں تک صرف ” معزز ممبران “ کا تعلق ہے تو وہ اپنی ممبر شپ بچانے اور خود کو نمایاں کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ماسوائے کمیونٹی کا واقر برقرارکھنے کی کوشش کے ۔ آپ کو کئی ایسے لوگ بھی انتخابات میں نظر آئیں گے جنہیں آپ نے پہلے کئی بار دیکھا ہوگا ، کچھ ایسے ہونگے جن سے آپ کبھی نہیں ملے ہونگے ، اراکین کی عمومی شناخت ان کے اداروں سے ہوتی ہے ، دربدر یعنی کئی اداروں سے نوکریاں کنوانے ، بے دخل کیے جانے اور مرضی سے ادارہ تبدیل کرنے والے اراکین بھی ہونگے ،لیکن ان کا کوئی نہ کوئی ادارہ ضرور ہوگا جو ان کی شناخت ہوگا یہ الگ بات کہ ہماری کمیوٹی میں ایسے ساتھیوں کی تعداد کم نہیں جنہیں اداروں کے حوالے سے شناخت کی ضرورت نہیں بلکہ اداروں کی ان سے شناخت ہوتی ہے ، یہ ایسے لوگ ہیں جو حقیقی اراکان ہیں ، ان میں ”مععز ممبران‘ شامل نہیں ۔
ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے یہی گذارش ہے کہ کسی کی کردار کشی مت کریں ، فرض کریں کہ آپ نے غلط فہمی میں کسی کی کردار کشی کردی اور کل انتخابی نتائج سے وہ آپ کی قیادت بن جائے تو پھر اس قیادت کی اس وقت کیا پوزیشن ہوگی جب آپ کے کسی مسئلے میں وہ کسی سے بات کررہی ہوگی ؟ کیا آپ کسی چور ٹھگ ، فراڈیئے ، وغیرہ وغیرہ سے چاہیں گے کہ وہ آپ کی نمائندگی کرے ؟ یا آپ کے حق کی بات کرے ؟ اور سننے والا اُس کی بات کو اہمیت دے ؟ کیونکہ آپ تو اس کے کردار سے دنیا کو آگاہ کرچکے ہیں۔جو آپ کے خیال میں اچھے کردار کا حامل نہیں اُسے اپنا نمائندہ منتخب ہی نہ کریں ، اس کے بارے میں اپنی جنرل کونسل میں کھل کر بات کریں اور ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ بس یہی عرض کرنا تھی ۔۔۔۔۔ شائد کہ اتر جائے مری بات ترے دل میں۔۔۔(محمد نواز طاہر)۔۔