تحریر: اسرار ایوبی (ماہرسماجی تحفظ)
دنیا کے دیگر پیشوں کی طرح شعبہ صحافت کو بھی ایک انتہائی اہم اور نہایت ذمہ دارانہ پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں اخباری مدیران،مدیران خبر،رپورٹروں، فوٹو گرافروں، کیمرہ مینوں، کمپیوٹر آپریٹروں اور دیگرمتعلقہ تکنیکی عملہ سمیت ہزاروں ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔صحافت کا پیشہ بھی دنیا کے دیگر لازمی پیشوں مسلح افواج، صنعت ہوابازی، ہوٹل،بندرگاہوں، صنعتی پلانٹس اور بڑے بڑے پیداواری کارخانوں کی طرح لازمی خدمات میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں صحافی حضرات ہر قسم کی موسمی و قدرتی آفات، زلزلہ، سیلاب، بارش، آندھی، طوفان، شورش اور کرفیو اور حتیٰ کہ دوران جنگ بھی عوام الناس کو تازہ ترین خبروں کی فراہمی کے لئے نہایت محنت،تندہی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں۔ صنعت صحافت کے اداروں میں اخبارات و جرائد، خبر رساں ادارے اور نجی ٹی وی چینلز شامل ہیں۔
حکومت پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے اخبارات و جرائد کی تعداد کم و بیش707 اور پیمرا کے مطابق نجی ٹی وی چینلز کی تعداد89 ہے۔جبکہ ملک بھر میں متعدد خبر رساں ادارے بھی قائم ہیں۔ جہاں ہزاروں کارکن صحافی، تکنیکی اور دیگر عملہ رات کے اوقات میں خبروں کی وصولی، تیاری، ترسیل اورفلمبندی،تدوین، نشریات اور دیگر انتظامی امور کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد صنعتوں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے گوناگوں مسائل سامنے آئے جن میں ان کے اوقات کار کا مسئلہ سر فہرست تھا۔ عالمی ادارہ محنت کے ایک جائزہ کے مطابق دن کے بجائے رات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ1919میں عالمی ادارہ محنت کے قیام کے ابتدائی برسوں میں رکن ممالک کے اجلاسوں میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد ملازمین اورکارکنوں کے اوقات کار کے متعلق عالمی محنت معیار کے تحت یہ حقیقت تسلیم کی گئی تھی کہ کام کے زائد اوقات ملازمین اور کارکنوں کی صحت اور ان کے اہل خانہ کے لئے باعث نقصان ہیں۔ لہذاء 29اکتوبر1919کو واشنگٹن،ریاستہائے متحدہ امریکہ میں منعقدہ رکن ممالک کے اجلاس میں عالمی ادارہ محنت کی جانب سے طے کردہ کام کے گھنٹوں کے پہلے عہد وپیماں میں ملازمین اور کارکنوں کے لئے کام کے محدود گھنٹوں اور مناسب عرصہ آرام فراہم کرنے کے لئے قانون منظور کیا گیا تھا۔جو دنیا کی صنعتی تاریخ میں ملازمین اور کارکنوں کے اوقات کار کے حوالہ سے ایک اہم سنگ میل کا درجہ رکھتاہے۔اسی طرح عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ14ویں اجلاس 10جون1930میں بھی تجارت اور دفاتر میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے کام کے مقررہ گھنٹوں کی منظوری دی گئی تھی۔ جس کا اطلاق تمام عوامی اور نجی شعبوں کے تجارتی و کاروباری اداروں بشمول ڈاک، ٹیلیگراف و ٹیلی فون سروسز اور کسی بھی تجارتی و کاروباری ادارہ کی شاخوں پر بھی کیا جائے گا۔۔ عالمی ادارہ محنت کے ان دونوں عہدو پیمان کے ذریعہ ملازمین اورکارکنوں کے لئے عام معیار کے مطابق دن میں 8 گھنٹے کام یا ایک ہفتے میں کام کے48 باقاعدہ گھنٹے مقرر کئے گئے تھے۔
ماہرین صحت کے مطابق رات کی شفٹ میں کام کرنے سے انسانی صحت پر بے شمار مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں قدرتی نیند کے سرور میں خلل،، بلند فشار خون،، دورہ قلب، ڈیپریشن، میٹابولزم میں تبدیلی، امراض معدہ کے مسائل،موٹاپا، ذیا بیطیس، خواتین میں چھاتی کا سرطان ااور جسم کے لازمی وٹامن ڈی سے محرومی کے خطرات میں اضافہ اور ان کی سماجی زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے عہد و پیماں نمبر171 بابتہ 1990کے مطابق رات کے کام کی تعریف” کسی کارکن کی جانب سے کم از کم مسلسل سات گھنٹے کام اور نصف شب سے صبح پانچ بجے تک وقفہ آرام۔ ” بیان کی گئی ہے۔طبی تحقیق کے مطابق دن کے بجائے رات میں خدمات انجام دینے ملازمین اور کارکنوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اسی خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی معیار محنت اور قانون سازی مرتب کرتے وقت ابتداء میں خواتین کے لئے رات میں کام کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ77ویں اجلاس بابتہ6جون1990 میں رات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے لئے دن میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے مقابلہ میں ” مناسب مالی معاوضہ” کے عہد و پیمان نمبر178کی منظوری بھی دی گئی تھی اور اسی فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں لازمی پیشوں سے وابستہ ملازمین اور کارکنوں کی لازمی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی غرض سے دن میں خدما ت انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے مقابلہ میں اضافی تنخواہیں ادائیگیاں اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستان نے بھی رکن ملک کی حیثیت سے محنت کے شعبہ میں عالمی ادارہ محنت کے تمام عہد و پیمان کی توثیق کی ہوئی ہے۔چنانچہ ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کی فلاح و بہود کے لئے ورکرز ویلفیئر فنڈ،ایمپلائیزاولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن اور صوبائی سطح پر ادارہ ہائے سماجی تحفظ اور دیگر فلاحی محکمے قائم کئے ہوئے ہیں۔جن کے قیام کا مقصد نجی اداروں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کو حکومت کی جانب اور آجران کی مالی سرپرستی میں قوانین محنت،اوقات کار، کم از کم اجرت، پنشن، بچوں کی تعلیم وتعلیمی وظائف، جہیز امداد اور وفات امداد اور علاج و معالجہ کی سہولیات بہم پہنچانا ہے۔ اخبارات و جرائد کے دفاتر میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور ان اخبارات و جرائدکے پرنٹنگ پریسوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنان ان اداروں کی فلا ح و بہبود کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان کے مروجہ ملازمتی قوانین کی رو سے تمام کاروباری، تجارتی صنعتی اور دیگر نجی اداروں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین خواہ ان کی ملازمت کسی بھی نوعیت کی ہو یعنی یومیہ اجرت،بدلی،تربیتی،موسمی،عارضی، ٹھیکیداری اورمستقل،ایسے تمام ملازمین اور کارکنوں کے لئے ملازمتوں کے بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں اور آجران پر ان قوانین محنت پر عملدرآمد کے لئے قانونی و اخلاقی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ ان بنیادی ملازمتی حقوق میں ملازمت فراہم کرتے وقت تقررنامہ کا اجراء بمطابق قائمہ احکامات1968، شرائط و ضوابط ملازمت،کام کی صراحت،اوقات کار کا تعین،تنخواہ اور الاؤنسز،ادارہ کے شناختی کارڈ کا اجراء،کام کی جگہ حفاظتی اقدامات کی سہولت، ملازمت پر آمدورفت کے سواری کی سہولت، ذاتی اور اہل خانہ کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت،رخصت کی سہولیات،اتفاقی /طبی/استحقاقی/زچگی رخصت، بچوں کے لئے تعلیم کی سہولت، جنرل پروویڈنٹ فنڈ،ملازمین کا اجتماعی بیمہ، اوور ٹائم، دگنااوور ٹائم،منافع کا بونس،کھانے پینے کی سہولت کے لئے کینٹین، ملازم کی وفات کی صورت میں تدفین کے اخراجات اور اس کے بچہ یا بچی کے لئے ملازمت کی فراہمی، ملازم یا کارکن اوران کے لواحقین کے لئے پنشن کے لئے ای او بی آئی میں رجسٹریشن، ملازم اور اہل خانہ کے علاج و معالجہ کے لئے ادارہ سماجی تحفظ میں رجسٹریشن اور بچوں کی تعلیم اور تعلیمی وظائف،رہائشی سہولیات،علاج و معالجہ، بچیوں کی شادی کے لئے ایک لاکھ روپے کی جہیز گرانٹ اور دوران ملازمت حادثاتی وفات کی صورت میں 5لاکھ روپے کی وفات امدادکے حصول کے لئے و رکرز ویلفیئر فنڈمیں رجسٹریشن کرانا لازمی ہے۔
ہم نے پنشن کے قومی ادارہ ای او بی آئی میں طویل عرصہ ملازمت کے دوران افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے دنیا جہاں کی خبریں فراہم کرنے والے اور سرکار اور سرکاری محکموں میں بڑی بڑی بدعنوانیوں کا پردہ فاش کرنے والے نامور اور قد آور صحافی حضرات کو خو داپنے بنیادی ملازمتی حقوق اور سہولیات سے آگہی کے معاملہ میں بالکل کوراکا کورا پایا اور حیرت ہوتی تھی کہ انہیں اپنے ملازمتی بنیادی حقوق کی بابت کماحقہ آگہی حاصل نہیں ہے۔ لہذاء ہم نے ای او بی آئی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے شہر کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے بے شمار صحافی حضرات کہ جن کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہیں اپنی ای او بی آئی ضعیف العمری پنشن کے حصول کے لئے دشواریوں کا سامنا تھا، ان کی مناسب رہنمائی اور تعاون کرکے ان کی ضعیف العمری پنشن کو یقینی بنایا۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ بیشتر اخبارت و جرائد اور ٹی وی چینلز کے ادارے ای او بی آئی میں اپنی اور اپنے ادارے کی رجسٹریشن اور ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی سے کتراتے ہیں اور بعض رجسٹر شد ہ اخبارات و جرائد اور نجی ٹی وی چینلز کی انتظامیہ تو پنشن کی مد میں کنٹری بیوشن کی رقم بچانے کی غرض سے ای او بی آئی کے سامنے یا تو اصل تعداد سے کم ملازمین ظاہر کرتے ہیں یا بعض اخباری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ کنٹری بیوشن کٹوتی کرکے یہ رقم ای او بی آئی پنشن فنڈ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے ادارہ کی دیگر مدوں میں استعمال کرکے خیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ان اخباری اور ٹی وی چینلز کے اداروں کی جانب سے ملازمت سے سبکدوش ہونے والے اپنے ملازمین کو ملازمتی سرٹیفیکیٹ،ملازمتی دستاویزات اوران کی آخری برس کی12ماہ کی تنخواہوں کے گوشوارے فراہم کرنے میں بھی لیت و لیل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تواس ترقی یافتہ دور میں بھی وطن عزیز میں صحافیوں کو تقرر نامے کے عدم اجراء، طویل اوقات کار اوربروقت تنخواہیں اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی بدترین صورتحال کے باعث بیشتر اخباری ادارے اور ٹی وی چینلز صحافیوں کے لئے بیگار کیمپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جہاں صحافی حضرات اپنی راتوں کی قیمتی نیند قربان کرکے اور اپنی قیمتی صحت کو خطرات میں ڈال کر نا صرف اخبارات و جرائد کی بروقت اشاعت کو یقینی بنارہے ہیں بلکہ 24گھنٹے ٹی وی چینلز کی بلا خلل نشریات کی فراہمی کے ذریعہ عوام الناس کو لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین خبروں کی فراہمی بھی یقینی بنارہے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس اس بے لوثی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے باوجود صحافی حضرات کی ایک بڑی تعداد نا صرف اپنے بنیادی ملازمتی حقوق سے محروم ہے بلکہ ستم بالائے ستم بروقت اپنے فرائض انجام دینے کے باوجوداپنی کئی کئی ماہ کی تنخواہوں، ادائیگیوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم نظر آتے ہیں جو یقیناپورے ملک کی صحافی برادری کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اگرچہ گزرتے وقت کے ساتھ بیشتر قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ملازمین اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹریڈ یونین سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ لیکن ہر شہر میں صحافی حضرات کی فلاح و بہبود کے نام پر متعدد انجمنیں اور پریس کلب برابر قائم ہیں۔ لیکن صحافیوں کے بنیادی ملازمتی حقوق،وقت پر تنخوہوں کی عدم ادائیگی،اچانک برطرفیوں، بیروزگاری، بقایاجات کی ادائیگی اور بڑھاپے میں طبی سہولیات کی فراہمی جیسے اہم مسائل کے حل کے لئے ان تنظیموں کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ موجودہ دور میں ملک کے ابتر معاشی حالات، موجودہ حکومت کی میڈیا اور سرکاری اشتہارات کی پالیسی،کورونا وائرس کی لہر،لاک ڈاؤن اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے باعث اور عوام الناس میں تازہ ترین خبروں کے لئے سوشل میڈیا کی مقبولیت نے پرنٹ میڈیا کی صنعت کو تیزی سے زوال کی جانب گامزن کردیا ہے۔ چونکہ اب تقریبا تمام اخبارات و جرائد کے ای پیپر انٹرنیٹ پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں۔لہذاء اخبارات وجرائد کی سرکولیشن کی تعدادبھی دن بدن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔لہذاء بیشتر اخبارات و جرائد اور نجی ٹی وی چینلز اور خبر رساں اداروں میں صحافیوں اور دیگر عملہ کی ملازمتوں سے برطرفیوں اور تنخواہوں میں کٹوتی کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔
اخباری صنعت میں یہ وطیرہ بھی عام ہوگیا ہے کہ کئی کئی دہائیوں تک قومی اخبارات و جرائد میں اہم ذمہ داریوں پر خدمات انجام دینے والے بزرگ صحافیوں کو ان کی ملازمت سبکدوشی کے لاکھوں روپے کے واجبات،جنرل پروویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی اور ای او بی آئی پنشن کے حصول کے لئے ملازمتی سرٹیفیکیٹ اور دیگر دستاویزات اور ان کی ای او بی آئی پنشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی غرض سے ملازمت کے آخری برس کی تنخواہوں کے گوشوارے بھی فراہم نہیں نہیں کئے جا تے اوراس مقصد کے لئے انہیں بار باراخبارات کے دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
صنعت صحافت کو درپیش اس ابتر اور غیر یقینی صورت حال میں صحافیوں کی اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز سے وابستہ ملازمین کی ملازمتوں،تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اوران کے لئے دیگربنیادی ملازمتی حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا صحافیوں کی ملک گیرتنظیموں کی اولین ذمہ داری ہے۔(اسرارایوبی)۔۔