تحریر: محمد نواز طاہر
صحافی کی شناخت پیشہ وارانہ دیانتداری جرات، بے باکی، کردار اور عمل سے ہوتی ہے، صرف نعرے لگانا یا اپنی ذات کا مفاد عزیز رکھنا صحافی کی شان اور شناخت نہیں، جو ایسا کرتا ہے وہ بعد میں اسے بھگتتا بھی ہے، بھلے اسے محسوس ہو یا نہ ہو۔۔چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے نثار عثمانی (مرحوم)وہاں کچھ ساتھیوں سے پھر بولے کہ بھئی جدوجہد میں کمزور ساتھیوں پر گلہ نہیں کیا جاتا جو لوگ اپنے مفاد کے سامنے سرنگوں ہوں، ان پر صرف اتنا ہی انحصار کریں، زیادہ بوجھ نہ ڈالیں لیکن انہیں اپنے ساتھ ہی رکھیں اور ان کے اندر طاقت پکڑنے کا جذبہ پیدا کریں البتہ جو لوگ ایجنسیوں اور مالکان کے لئے مخبریاں کریں ان سے ہوشیار رہیں۔ ارشد حسین باصر (مرحوم) بولنے لگے تو نثار عثمانی (مرحوم) نے روک دیا، بولے برخوردار! آپ کی بات بہت سوں کو بُری لگے گی، مجھے معلوم ہے کہ کونسی بات دہرانا چاہتے ہیں لیکن چھوڑیں۔۔۔جی سر۔۔ یہ کہہ کر ارشد حسین باصر اٹھے، مجھے ساتھ لیا اور ہم دونوں شیخ عارف حسین المعروف بھائی(مرحوم) کو مخصوص اشارہ کرکے ڈان کے دفتر سے قہقہے لگاتے باہر نکل آئے، شام ہوچکی تھی، عارف بھائی اکیلے ہی فون پر محمود الزمان (مرحوم)سے بات کررہے تھے اور عثمانی صاحب کی ہدایات سے آگاہ کررہے تھے۔عارف بھائی نے مجھے اور ارشد حسین باصر (مرحوم) کو دیکھتے ہی فقرہ چست کیا اور پھر بتایا کہ عثمانی صاحب نے سب کو اتحاد اور ایک دوسرے سے تعاون کی ہدایت کی ہے لیکن یار آج عثمانی صاحب کی آنکھوں میں آنسو دیکھے نہیں گئے۔۔ مجھے تو بڑا خوف آرہا ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا جو آج ان کی کیفیت تھی۔۔۔
یہ سن انیس سو ترانوے کی ایک سرد دوپہر اور یخ شب تھی۔ پی پی ایل کی’قبر‘ کا ذکرجنگ گروپ کا ایک عمل زیر بحث تھا، اسے سخت ناپسند کیا جارہا تھا، تنقید کی جارہی تھی تحفظات کا اظہارکیا جارہا تھا۔ جنگ گروپ نے اپنے ادارے سے تعلق رکھنے والے پریس کلب کے اراکین کی سالانہ فیس مشترکہ طور پر جمع کروانے کی کوشش کی تھی جسے انتظامیہ کی صحافیوں کے معاملات میں دخل اندازی اور کلب کی سیاست پر اثر انداز ہونا قراردیا جارہا تھا۔ یہ بات بھی زیرِ بحث تھی کہ اخبارات میں پوری پوری ٹیم کے منتقل ہونے سے اخبارات کے ساتھ ساتھ کارکن بھی متاثر ہوتے ہیں۔ سب سے بڑے معترضین میں راجہ اورنگ زیب (مرحوم) اور ان کے”کارِ خاص“(love) قمراللہ چودھری تھے، حامیت کرنے والے زیادہ تر وہ تھے جنہوں نے عثمانی ساحب کے انتقال پر سینیارٹی سنبھالی، صحافیوں کی این جی او بنائی جس میں کبھی بھی کارکن صحافیوں کے معاشی حقوق کی بات نہیں کی بلکہ مجموعی طور پر جنگ گروپ کے مفادات میں کام کرتے رہے گو کہ ان میں سے کچھ اب اُس اعتراض کو درست مانتے ہیں۔
اگلے سال پیپلز پارٹی کی ھکومت آچکی تھی اور بینظیر بھٹو (شہید) وزیراعظم بن چکی تھیں جنہوں نے ایک ملاقات میں عثمانی ساحب سے زیادہ مجید نظامی (مرحوم) کو اہپنے لئے اہم قراردیا، یہ عثمانی ساحب کے لئے بہت تکلیف دہ بات تھی، بیماری میں یہ بات انہیں نڈھال کرگئی اور پھر عثمانی ساحب چار ستمبر کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور لاہور کی صحافتی برادری قیادت سے ’یتیم‘ ہوگئی۔۔
پریس کلب کے بعد پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) میں بھی ایسا ہی ہوا کہ گروپوں کی سیاست شروع ہوگئی، پریس کلب اور پی یوجے میں دھڑا دھڑ گروپوں اور مالکان کی مداخلت بڑھ گئی، پی یو جے میں مالکان کی اور مخصوس گروپوں کی ؔشفقت‘ کے بغیر منتخب ہونے والے آخری صدر عطاالمصور قراردیے جاسکتے ہیں۔نوے کی دہائی ختم ہونے کے بعد پریس کلب اور پی یو جے میں تحریک پر تفریح غالب آگئی، تفریحی ذہن رکھنے والے مزاحمت نہیں کرسکتے اور یوں مزاحمت ختم یا برائے نام اور دکھاوے کی حد تک رہ گئی۔نثار عثمانی مرحوم جن حالات پر پچیس سال پہلے آنسو بہا رہے تھے اور اس کا دکھی دل کے ساتھ عارف بھائی مرحوم نے ارشد حسین باصر مرحوم اور میرے سامنے کیا تھا، آج وہی حالات ہیں۔نہ صحافی وہ صحافی ہیں، تنظیمیں وہ تنظیمیں ہیں اور نہ ہی کارکن ایک دوسرے کا ساتھ دینا تو درکنار اپنے مفاد میں بھی سٹینڈ لینے پر راضی نہیں ہوتے بلکہ سوشل میڈیا پر ہی بین ڈالتے ہیں۔
پچھلے سال کے اواخر سے اب تک ہزاروں کارکنوں کا معاشی قتلِ عام ہوچکا ہے، اسی دوران تنظیمیں انحطاط کی گہرائیوں میں جاچکی ہیں، مالکان من مانی کررہے ہیں اور حکومت ان کی آلہ کار بن گئی ہے، وہ حکومت جس کے منتخب اراکین میں کوئی اس قابل نہیں کہ اسے اطلاعات کا وزیر بنایا جاسکے اور ایک غیر منتخب خاتون کو مشیر بنا کر پوری وزارت سونپ دی گئی ہے، یہ وہ خاتون ہیں جن کے صاف ستھرے کردار پرنیب کے پاس پڑے ہوئے ریکارڈ کے دھبے لگے ہوئے ہیں۔ان سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چودھری کو زندگی میں پہلی بار وزارت ملی تو ان کا نظامِ انہظام ڈسٹرب ہوگیا جبکہ صحافیوں کے نمائندوں نے تو انہیں مزید ’خوراک‘ دے کر دست لگودیے اور وہ وزارت سے فارغ ہوگئے حالانکہ ان کا موقف پی ایف ی جے کے سابق موقف (مالکان کے اثاثوں کی چھان بین اور احتساب، سنہ دوہزار نو سے پی ایف یو جے اپنا یہ بھلا چکی ہے) سے بہت قریب تھا، فواد چودھری کا وزارت سے الگ ہونا اور فردوس اعوان کی لاٹری نکلنے سے میڈیا مالکان کے لئے بمپر انعام تھا۔۔۔میڈیا کارکنوں کی چھانٹیوں کا عمل رکنے کے بجائے طوفانی شکل اختیار کرگیا ہے اور موجودہ طوفان بلکہ’معاشی کربلا‘ دنیا گروپ نے برپا کی ہے۔مجموعی طورپر چار سو کارکنوں کی چھانٹی مقصود ہے جن میں سے ساڑھے تین سو کے قریب کا ہدف انتظامیہ کامیابی سے حاصل کرچکی ہے، اسے کسی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ وہ ماضی میں مداخلت ناکام بنانے کا بھی کامیاب تجربہ کرچکی ہے جس پر اب بھی عمل جاری ہے اور انتظامیہ’چونے چونے‘ لوگوں سے رابطے کرکے انہیں ضیافتیں دے رہی ہے۔ اسے پہلے جنگ گروپ کارکنوں کا قتلِ عام کرچکا ہے اور بڑے سکون میں ہے اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں، جس مزاحمت کا سامنا جنگ گروپ نے کرنا تھا وہ مزاحمت تو خودد کارکن ہی ایک دوسرے کے خلاف مفادات اورالزامات کی جنگ کی صورت میں کررہے ہیں۔
اب نثار عثمامانی مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے اور حالات کربلا جیسے ہیں، ان کی برسی پر انہیں خراجِ عقیدت تو پیش کیا جائے گا لیکن ان کا راستہ اختیار کرنے والوں کی تعداد میں شاید اضافہ نہیں ہوگا،خراج، عقیدت پیش کرنے والوں کی بڑی تعداد ان رہنماؤں کی ہوگی جنہون نے عثمانی صاحب کی جدوجہد کو تحریک سے تفریح میں بدلا یا اس گروہ سے استفادہ کرنے والے ہیں۔آج بھی وقت ہے کہ اگر ہم نثار عثمانی کا راستہ اور طریقِ کار اختیارکرلیں تو یہ ان کو حقیقی خراجِ عقیدت بھی ہوگا اور معاشی قتلِ عام بھی روکا جاسکے گا ورنہ کون نہیں جانتا کہ کوفے والے ہی خود کو آج قافلہ حسینی ؑ قراردیتے ہیں حالانکہ یہ سچ نہیں، سچ کچھ اور ہے۔۔ اور وہ صرف سچ ہے، حق ہے جسے وقتی طور پردبایا تو جاسکتا ہے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔(محمد نوازطاہر)