تحریر: عمیر علی انجم
ممتاز صحافی رہنما منہا ج برنا نے کہا ہے کہ میڈیا بحران کے دور میں صحافیوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ہمارے نام بیچنے والے صحافی رہنماؤں نے اپنی کمیونٹی کے افراد کو جس طرح بے آسرا چھوڑا ہے اس کے بعد ان کو رہنمائی کا کوئی حق حاصل نہیں رہا ۔دنیا میں موجود اپنے مجبور اور لاچار صحافی بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے حقوق کا تحفظ کریں اور وقت کے جابروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں ۔ان خیالات کا ظہار انہوںنے عالم بالا میں ”میڈیا بحران میں صحافتی تنظیموں کا کردار” کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیمینار سے فیض احمد فیض ،نثار عثمانی ،آئی ایچ راشد ناصر کاظمی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر ایک قرارداد بھی پیش کی گئی ،جس میں میڈیاہاؤسز مالکان اور صحافی تنظیموں کے شرمناک کردار کی مذمت کی گئی ۔منہا ج برنا نے کہا کہ آج عالم بالا میں میرے ساتھی انتہائی کرب کے عالم میں مبتلا ہیں اور اس بات پر نوحہ کناں ہیں کہ ہم نے جو تحریک شروع کی تھی اس کو چند مفاد پرست عناصر نے ہائی جیک کرلیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ میڈیا بحران کے اس دور میں جب قیام کا وقت آیا تو ہمارے ”بچے ”سجدے میں جاگرے ہیں۔جس وقت ان کے بھوکے اور لاچار ساتھیوں کو ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی یہ ان کاسودا کررہے تھے ۔منہاج برنا نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ میرے صحافی ساتھی ان ”عظیم رہنماؤں” کو ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ خود لڑیں ۔فیض احمد فیض نے کہا کہ شعبہ صحافت کا زوال کسی المیہ سے کم نہیں ہے ۔رہنما رہزن بن جائیں یہی سب کچھ ہوتا ہے جو آج ہورہا ہے ۔ ذاتی مفادات کے لیے اپنی برادری کو بیچ دینے والے کسی بھی طور رہنمائی کے حق دار نہیں ہیں ۔وقت آگیا ہے کہ صحافی برادری اپنی صفوں میں موجود ان بھیڑیوں کو نکال باہر کریں اور ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو درد دل رکھتے ہوں اور ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات رکھتے ہوں۔ نثار عثمانی نے کہا کہ ہماری تحریک میں ایسے لوگ شامل تھے جنہوںنے آمروں کے سامنے ڈٹ کر اپنے حقوق کی بات کی اور کسی کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے ۔ہم نے کوڑے کھائے ،جیلوں میں گئے لیکن اپنے بھائیوں کا سودا نہیں کیا ۔مجھے آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے صحافی بھائی سوداگروں میں گھر گئے ہیں جو ان کے دام لگاکر اپنے محل تعمیر کروارہے ہیں ۔آئی ایچ راشد نے سیمینا ر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ساری زندگی کرائے کے مکانوں میں رہتے رہے ۔سواری کے لیے ہمارے پاس سائیکل تک موجود نہیں ہوتی تھی ۔میں آج یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ صحافیوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے مہنگی گاڑیوں اور محلات میں رہتے ہیں ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان کے ہاتھ یہ قارون کا خزانہ کس طرح لگا ۔میں عالم بالا سے یہ پروزور مطالبہ کرتا ہوں کہ تمام صحافی رہنماؤں کا بے لاگ احتساب کیا جائے اور ہمیں عالم بالا میں شرمسار کرانے والوں سے صحافی خود جواب طلب کریں ۔سیمینار اس وقت جذباتی رنگ اختیار کرگیا جب ناصر کاظمی کو خطاب کی دعوت دی گئی ۔ناصر کاظمی صحافیوں کی بھوک اور حالت زار کا سن کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور خطاب کرنے سے انکار کردیا تاہم منتظمین کے بے حد اصرار پر انہوں نے اپنا یہ شعر ”بیٹھ کر سایہ گل میں ناصر ۔۔۔ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا”سناکر رخصت لے لی ۔بعد ازاں منتظمین کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ میڈیا بحران اور اس کے حل کے موضوع پر دوسرا سیمینار جلد ہوگا ۔(عمیرعلی انجم)۔۔
نوٹ:عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر۔۔