تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
گزشتہ روز کراچی پریس کلب کی تاریخی عمارت کے سامنے جب میں یہ نعرے بلند کررہا تھا کہ ”ظلم کے ضابطے ۔۔ہم نہیں مانتے ”تو میری آواز میں آواز ملانے والوں میں جو لوگ شامل تھے ان میں کوئی ”رہنما” شامل نہیں تھا ۔۔میں نے دوستوں کے کہنے پر ان کو دعوت بھی دی تھی لیکن مجھے کامل یقین تھا کہ یہ اس سے اجتناب برتیں گے ۔۔یہ مجھے کہتے ہیں کہ تم نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے اس لیے ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ ۔ میں یہاں آپ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔آج آپ خود دیکھ لیں کہ صحافیوں کی کتنی تنظیمیں موجود ہیں ۔۔آخر یہ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ کیوں جاری ہے ؟؟؟کوئی ان سے سوال پوچھے کہ جنا ب آپ کو میری تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تونظر آرہی ہے لیکن آپ لوگوں نے جو خود ”اے ٹو زیڈ” تک دھڑے بنائے ہوئے ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نظریات کا مسئلہ ہے ۔۔نظریاتی اختلافات کے باعث ہم نے اپنا الگ تشخص قائم کیا ہوا ہے ۔۔چلیں آپ کی بات تسلیم کرلیتے ہیں کہ بات نظریات کی ہے لیکن آج کس طرح آپ انہی کے زیر سایہ بیٹھ گئے ہیں جن کے ساتھ آپ کے نظریاتی اختلافات ہیں ۔۔آپ ایک لمحے کو سوچیں کہ کسی مذہبی جماعت کی قیادت ”سنی لیون” کو دے دی جائے تو اس جماعت کا کیا بنے گا اور خود سنی لیون کا کیا بنے گا ۔۔یہ جو ”بھان متی کا کنبہ” جوڑا گیا ہے ۔۔کبھی آپ نے سوچا کہ یہ آخر آپ کودے گا گیا؟؟؟؟کسی ”سنی لیون” کی قیادت آپ کے نظریات کی کس طرح محافظ ثابت ہوسکتی ہے ۔۔جہاں تک بات ”سنی لیون” کی ہے تو اس کا مسئلہ ہی سستی شہرت ہے ۔۔اس نے پہلے بھی بہت منجن فروخت کیے ہیں اور اب آپ کو فروخت کررہی ہے اور آپ ہیں کہ اپنی سادگی میں اپنا سودا ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔۔میں نے جب سے آواز اٹھانا شروع کی ہے اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ اب ”بھان متی کے کنبے ” میں بھی کچھ حرارت محسوس ہوئی ہے ۔۔ایک خبر میرے سامنے ہے جس میں صحافیوں کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔اس میں بڑے مزے مزے کے اعلانات کیے گئے ہیں ۔ایک اعلان تو بہت ہی خوب ہے ۔۔وہ یہ کہ شہر بھر میں بینرز آویزاں کیے جائیں گے ۔۔کمال ہی کردیا آپ لوگوں نے تو ۔۔کیا ہی خوب حکمت عملی ہے ۔۔جیسے ہی یہ بینرز شہر بھر میں لگیں گے ملک بھر سے میڈیا مالکان آپ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ جناب ہم سے غلطی ہوگئی ۔۔ہم تمام بے روزگار ہونے والے صحافیوں کی بحالی کا اعلان کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ کسی صحافی کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا ۔۔صحافی نہ ہوئے سانحہ بلدیہ کے سادہ لوح متاثرین ہوگئے جن کو آپ شہر بھر میں فروخت کردیں ۔۔جناب !کچھ سنجیدگی دکھائیں۔۔پوری پریس ریلیز میں مجھے ایک بھی ایسا اقدام نظر نہیں آیا جس سے مالکان کے مفادات پر براہ راست چوٹ پڑتی نظر آتی ہو ۔۔یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی جنگل میں ایک بندر کو بادشاہ بنادیاگیا تھا ۔۔بادشاہ سلامت کے پاس کچھ لوگ شیر کا مقدمہ لے کر آگئے اس نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔۔اب جناب بادشاہ بندر صاحب تھے ۔فیصلہ کرنا تھا شیر کے حوالے سے ۔۔انہوںنے ایک درخت سے دوسرے درخت چھلانگیں لگانا شروع کردیں ۔۔کافی دیرتک یہی عمل جاری رہا تو دوسرے جانوروں نے کہا کہ بادشاہ سلامت کافی وقت گذر گیا ہے اب فیصلہ بھی سنادیں تو بادشاہ سلامت نے کہا کہ دیکھ نہیں رہے میں کتنی محنت کررہا ہوں ۔۔ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں مارکر سوچ بچار کررہا ہوں ۔۔فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔۔جب سوچ بچار ختم ہوگی تو فیصلہ سنادیا جائے گا ۔۔جنگل کے باسی بتاتے ہیں کہ بادشاہ سلامت آج تک ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگارہے ہیں ۔۔بات تو سخت ہے کہ لیکن کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عظیم رہنماؤں کی حکمت عملی بھی یہی نظر آرہی ہے ۔۔جب صحافی ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اب تک کتنے صحافیوں کو بحال کروایا ہے ؟؟ تو جواب آتا ہے کہ دیکھ نہیں رہے کیا ۔۔ہم سوچ بچار میں مصروف ہیں۔۔ مطلب وہی کہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگارہے ہیں ۔۔خیر یہ تو ان کی بات تھی ۔۔یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اعتبار خود ہی کھوتے جارہے ہیں ۔۔بغیر کسی بنیاد کے تعمیر کی گئی یہ عمارت جلد خود اپنے بوجھ تلے دب جائے گی ۔میں یہاں ایک مرتبہ پھر اپنے ان ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو میرے ساتھ مظاہرے میں شریک ہوئے ۔۔پہلے مظاہرے کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی اور انشاء اللہ مستقبل میں یہ کاروان مزید بڑھتا جائے گا کیونکہ اس کے پیچھے صرف خلوص اور دیانتداری ہے ۔(عمیر علی انجم)۔۔
بلاگر کی تحریرسے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔