تحریر: جاوید چودھری۔۔
میں روز ایک نیم سرکاری ادارے میں ایکسرسائز کرنے جاتا ہوں‘ یہ اپرکلاس کا ادارہ ہے‘ اس کے نوے فیصد وزیٹرز پڑھے لکھے اور خوش حال لوگ ہیں لیکن میں روز دیکھتا ہوں اس ادارے میں بھی لوگ سیڑھیوں سے دائیں اور بائیں دونوں سائیڈز سے بھی آتے اور جاتے ہیں‘ میں یہ تماشا سال بھر دیکھتا اور اگنور کرتا رہا لیکن پھر میں نے سوچا‘ ہو سکتا ہے یہ لوگ اس بنیادی اخلاقیات سے واقف نہ ہوں لہٰذا مجھے ان لوگوں کو سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کا طریقہ بتانا چاہیے۔
مجھے بھی یہ اخلاقیات لوگوں نے سکھائی تھی اور یہ علم اب آگے پھیلانا میری ’’ذمے داری‘‘ ہے چناں چہ میں اب روز لوگوں کو روکتا ہوں اور انھیں نہایت عاجزی کے ساتھ‘ تین مرتبہ معذرت کر کے عرض کرتا ہوں جناب چلتے ہوئے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے ہمیشہ بائیں جانب (لیفٹ سائیڈ) رہنا چاہیے‘ رائٹ سائیڈ (دائیں جانب) آنے والے لوگوں کے لیے ہوتی ہے‘ میرا خیال تھا لوگ میری مداخلت پر ناراض ہوں گے لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا لوگ اس پر نہ صرف میرا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ فوراً لیفٹ سائیڈ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔
مجھے اس سے معلوم ہوا ہم نے بنیادی طور پر لوگوں کو چھوٹی چھوٹی اخلاقیات بتائی ہی نہیں‘ ہم نے انھیں سکھایا ہی نہیں لہٰذا ہمیں پورے معاشرے میں تربیت کی کمی محسوس ہوتی ہے‘ میں اس کالم کے ذریعے آپ کو عام زندگی کی چند ٹپس دینا چاہتا ہوں‘ ہو سکتا ہے ان سے آپ کی زندگی مزید بہتر ہو جائے لیکن میں اس طرف جانے سے پہلے آپ سے معذرت چاہتا ہوں‘ میرا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں میں آپ کو اجڈ اور خود کو تہذیب یافتہ ثابت کر رہا ہوں‘ ہو سکتا ہے آپ ان سے واقف نہ ہوں اور میری چھوٹی سی کوشش سے آپ کی زندگی بہتر ہو جائے۔
میں نے زندگی میں پہلی ٹریننگ ویٹر کی لی تھی لہٰذا میں صحافی کے ساتھ ساتھ پروفیشنل ویٹر بھی ہوں‘ میں نے یہ ٹریننگ فرنچ سینٹر اسلام آباد سے لی تھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی کرائی تھی‘ فرنچ سینٹر بدقسمتی سے بند ہو گیا لیکن ملک کے پانچ بڑے شہروں میں فائیو اسٹار ہوٹلز ہاسپٹیلٹی کورسز کراتے ہیں‘ آپ خود اور اپنے بچوں کو یہ کورس کرا سکتے ہیں‘ آپ کو کھانے پینے اور دوسروں کی خدمت کی تمیز آ جائے گی‘ میں روز ایک دل چسپ عذاب سے گزرتا ہوں‘ میں جب بھی اپنے مہمانوں کو چائے یا کافی پیش کرتا ہوں تو یہ انکار ضرور کرتے ہیں۔
اکثر لوگ نہایت بدتمیزی سے کہتے ہیں میں چائے پیتا ہی نہیں ہوں یا میں ابھی ناشتہ یا کھانا کھا کر آیا ہوں‘ میں یہ سن کر ہنس پڑتا ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمیں کسی نے آج تک یہ نہیں بتایا کھانے پینے کی چیزوں سے انکار بدتہذیبی اور بدتمیزی ہوتی ہے‘ مہمان نوازی کی تین اسٹیجز ہیں‘ میزبان مہمان سے پوچھے بغیر اس کی خدمت شروع کر دے‘ یہ اپنائیت اور تہذیب کا اعلیٰ ترین درجہ ہوتا ہے اور اس درجے کا یہ مطلب ہوتا ہے میزبان مہمان کو بہت اہمیت دے رہا ہے‘ ہم جب اس سطح پر انکار کرتے ہیں تو اس سے میزبان کا دل ٹوٹ جاتا ہے چناں چہ اس اسٹیج پر مہمان کو ہمیشہ میزبان کا گرم جوشی سے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
انکار نہیں کرنا چاہیے‘ دوسرے درجے پر میزبان مہمان سے پوچھتا ہے ’’ آپ چائے لیں گے‘ گرین ٹی یا کافی‘‘ اس درجے پر بھی انکار نہیں کرنا چاہیے‘ آپ میزبان کو اپنی ترجیح ضرور بتائیں کیوں کہ اس اسٹیج پر بھی آپ کا انکار بدتمیزی ہو گی اور تیسری اسٹیج پر میزبان مہمان سے کچھ نہیں پوچھتا‘ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے میزبان آپ سے میٹنگ کو انتہائی غیر اہم سمجھ رہا ہے یا اسے بہت جلدی ہے لہٰذا مہمان کو اس میٹنگ کو لمبا نہیں کرنا چاہیے‘ اسے براہ راست مدعے پر آنا چاہیے اور رخصت ہو جانا چاہیے۔ مہمان نوازی کے بعد میزبان کے کھانے کی تعریف کرنا بھی فرض ہوتا ہے‘ آپ اگر کھا پی کر چپ چاپ نکل جاتے ہیں تو یہ بھی بدتمیزی اور بدتہذیبی سمجھی جاتی ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے ہم جب تک شکریہ اور معذرت کو اپنی گفتگو کا لازمی حصہ نہیں بنا لیتے‘ ہمیں اس وقت تک خود کو پڑھا لکھا اور مہذب نہیں سمجھنا چاہیے لہٰذا آج سے پروردگار کا شکر‘ دوسروں کے شکریے اور معذرت معافی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں آپ کی زندگی اچھی گزرے گی‘ آپ اگر کسی شخص سے ملاقات کا وقت لیتے ہیں تو آپ اسے صرف آنے کا وقت نہ بتایا کریں‘ اسے واپس جانے کا ٹائم بھی ضرور بتایا کریں تاکہ وہ اپنی مصروفیات کو ’’ری ڈیزائن‘‘ کر سکے‘ کسی شخص کے گھر یا دفتر میں جا کر بیٹھ جانا اس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔
کسی بھی کمرے میں اس وقت تک داخل نہ ہوں جب تک آپ دروازے پر دستک نہ دے لیں خواہ وہ کمرہ آپ ہی کا کیوں نہ ہو‘ آپ جب بھی کوئی دروازہ اندر سے کھولیں تو دروازے اور آپ کے درمیان ایک بازو کا فاصلہ ہونا چاہیے‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر کوئی شخص عین اس وقت اس دروازے کو باہر سے اندر دھکیل دے گا تو آپ دروازے کی زد میں آ جائیں گے اور دروازہ آپ کے منہ پر لگے گا‘ آپ زخمی ہو جائیں گے۔
آپ نے پرانی فلموں میں انگریز اداکاروں کو پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چلتے اور کھڑا ہوتے دیکھا ہوگا‘ آپ نے کبھی سوچا انگریز ایسا کیوں کرتے تھے؟ پرانے زمانے کے مہذب انگریز جیب میں خوشبو لگا رومال رکھتے تھے اور یہ دوسروں سے ہاتھ ملانے سے پہلے جیب میںہاتھ ڈال کر ہاتھ کا پسینہ خشک کر لیتے تھے جب کہ ہم گیلے ہاتھوں کے ساتھ دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ یہ زیادتی ہے‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ ہاتھ میں ٹشو پیپر رکھا کریں اور دوسروں سے ہاتھ ملانے سے پہلے ہاتھ خشک کر لیا کریں‘ دوسرا‘ جب تک دوسرا شخص آپ کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے آپ اس وقت تک اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا کریں‘ سلام ہمیشہ منہ سے ہوتا ہے اور یہ کافی سے بھی زیادہ کافی ہوتا ہے۔
لوگوں سے بلاوجہ گلے ملنا بھی ترک کر دیں‘ یہ بھی تمیز میں نہیں آتا‘ لوگوں کے کان میں بات کرنے سے پہلے منہ پر ہاتھ رکھ لیا کریں تاکہ آپ کے منہ کی بدبو سے دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں اور یہ بھی یاد رکھیں دنیا کے ہر شخص کے منہ سے بو آتی ہے اور وہ ’’ہر شخص‘‘ آپ بھی ہیں‘ آپ دروازہ بند کرتے وقت پیچھے ضرور دیکھ لیا کریں‘ ہم اکثر اوقات پیچھے دیکھے بغیر دروازہ چھوڑ دیتے ہیں اور دروازہ ہمارے پیچھے کھڑے لوگوں کے منہ پر جا لگتا ہے یا ان کی انگلی اور ہاتھ دروازے میں آ جاتا ہے‘ لوگوں سے کم از کم ایک ہاتھ کا فاصلہ ضرور رکھا کریں۔
دوسروں کے اوپر چڑھ جانا انتہا درجے کی بدتمیزی ہوتی ہے اور لوگ جب آپس میں بات کر رہے ہوں تو آپ درمیان میں نہ کودا کریں‘ سائیڈ پر کھڑے ہو کر ان کی بات ختم ہونے کا انتظار کریں‘ دوسروں کی گفتگو میں جمپ کرنا تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں اکثر لوگ محفل میں ناک اور گلا صاف کرنے لگتے ہیں‘ ہم بے ہودگی کے ساتھ چھینک مارنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ سرعام تھوکنا اور خارش کرنا ہم اسے اپنا حق سمجھتے ہیں‘ میں اپنے دوستوں سے اکثر کہتا ہوں ہم پنجابی اوسطاً روزانہ دو گھنٹے خارش کرتے ہیں اور خارش بھی وہاں وہاں فرماتے ہیں جہاں پہنچ کر خارش کو بھی شرم آ جاتی ہے‘ ہم جمائی لیتے ہوئے اور ڈکار مارتے ہوئے بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتے‘ یہ ساری حرکتیں مہذب معاشروں میں انتہائی بے ہودہ سمجھی جاتی ہیں۔
آپ ملک کی کسی گلی یا فٹ پاتھ کا معائنہ کر لیں آپ کو وہاں بلغم اور تھوک ضرور ملے گا اور یہ ہماری اجتماعی بے ہودگی کی نشانی ہوتا ہے‘ خدا را ‘خدا را اس سے پرہیز کیا کریں‘ ہم سب کپڑوں پر پرفیوم لگاتے ہیں جب کہ پرفیوم کے دو مقامات ہوتے ہیں‘ گردن اور کلائیاں‘ آپ پلیز کپڑوں کو خوشبو سے تر نہ کیا کریں‘ گردن اور کلائیوں کو معطر کر لیا کریں‘ یہ کافی ہوتا ہے‘ زیادہ پرفیوم سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے‘ ہم سب من حیث القوم سرعام موبائل سننے کی علت کا شکار بھی ہیں۔
فون ایک ’’خفیہ‘‘ کام ہوتا ہے‘ آپ مہربانی فرما کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر فون پر بات کریں‘ یہ یاد رکھیں آپ کتنے اہم اور امیر ہیں لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی‘ فون کو جیب میں رکھنا بھی شروع کر دیں‘ اسے ٹرافی کی طرح ہاتھ میں اٹھانا ضروری نہیں ہوتا‘ ہم لائن میں کھڑا ہونا بھی توہین سمجھتے ہیں جب کہ لائن بنانا اور اپنی باری کا انتظار کرنا مہذب دنیا کی عبادت ہے‘ آپ بھی پلیز یہ عادت ڈال لیں‘ لوگ آپ کی عزت کریں گے‘ آہستہ بولنا‘ شائستگی اور تہذیب کی نشانی ہوتی ہے‘ آپ پلیز پلیز آہستہ بولا کریں۔
اللہ نے دنیا میں سب انسانوں کو کان دے رکھے ہیں‘ یہ آپ کی بات سن بھی سکتے ہیں اور سمجھ بھی‘ آپ ایک بار ان کی قوت سماعت پر اعتبار کر کے دیکھیں آپ کو نتائج حیران کر دیں گے اور دوسرے لوگوں کو صاحب اور سر کہنے سے لوگ بڑے نہیں ہو جاتے لیکن آپ ضرور ہو جاتے ہیں‘ ہمیشہ یاد رکھیں عزت ہمیشہ دینے سے ملتی ہے‘ آپ دوسروں بالخصوص کام کرنے والوں کی عزت کیا کریں‘ اللہ آپ کو بھی عزت سے نوازے گا اور آخری بات‘ ہم نعوذ باللہ خدا یا پیغمبر نہیں ہیں‘ ہم سب عاجز انسان ہیں لہٰذا اپنی بات اور اپنی رائے کو حرف آخر نہ سمجھا کریں‘ بات کیا کریں‘ اسے منوانے کی کوشش نہ کیا کریں ورنہ آپ دنیا اور آخرت دونوں میں اکیلے رہ جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)