تحریر: محمد وقار بھٹی
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کراچی کی صحافت کا ایک بڑا نام پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو گیا اور جب تشخیص ہوئی تو پتہ چلا کہ کینسر پھیپڑوں سے نکل کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل چکا ہے۔اگرچہ کینسر اسٹیج فور کا تھا لیکن علاج تو بہرحال کروانا تھا سو علاج شروع کروایا گیا لیکن کہاں، پہلے ایک پرائیویٹ اسپتال میں اور اس کے بعد ایک ویلفیئر اسپتال میں کیونکہ مرحوم اور ان کے لواحقین کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ ان کا علاج آغا خان اسپتال یا کسی اور پرائیویٹ ادارے میں کروایا جا سکتا۔اور ایسا بھی نہیں تھا کہ بوقت تشخیص وہ بے روزگار تھے بلکہ اس وقت وہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ تھے لیکن ادارے نے ان کے علاج کے سلسلے میں قطعا کوئی مدد فراہم نہیں کی کیونکہ اس ادارے کے ایچ ار کے حکام نے انہیں ایک ایسے چنگل میں پھنسایا تھا جس کے تحت وہ میڈیکل کی سہولتوں کے حقدار ہی نہیں تھے۔
قصہ مختصر یہ کہ آخری عمر میں انہیں درد سے نجات کے پروگرام کی ضرورت تھی جسے انگریزی میں Palliative Care کہتے ہیں لیکن چونکہ یہ پروگرام صرف چند بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں موجود ہے اور اس سہولت کے لیے لاکھوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ان کے پاس نہیں تھے اور ان کے ادارے کو بھی ان کے علاج کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی سو وہ شدید اذیت میں مبتلا تو ہوئے لیکن جلد ہی مر کر دنیاوی اذیتوں سے نجات پا گئے۔
اور آج یہ خبر ملی کہ سما ٹی وی کے سابق سینیئر پروڈیوسر فیصل ایوب پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو گئے، انہیں بھی کچھ عرصہ قبل ٹی وی انتظامیہ نے استعفی دینے پر مجبور کر کے بے روزگار کر دیا تھا۔
یہ باتیں اس لیے یاد ارہی ہیں کہ کل رات نیشنل پریس کلب میں برادرم احتشام الحق نے کسی سابق کل وقتی اور موجودہ جزوقتی صحافی کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ آپ کسی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر پڑھاتے ہیں اس لیے اپ کا مین سورس اف انکم صحافت نہیں تو اپ صحافی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
یہ جو “مین سورس اف انکم صحافت ہونی چاہیے” والی بات ہے یہ مجھے نہ جانے کیوں بھڑکا دیتی ہے۔
صحافت میں کیسی انکم؟
اگر اپ صحافی ہیں تو اپنے ارد گرد نظر ڈالیے، چند اینکرز اور مینجمنٹ کی پوزیشنز پر بیٹھے ہوئے چند صحافیوں کے علاوہ اس ملک کے ہزاروں صحافیوں کی انکم ہے ہی کیا آخر؟
پاکستان کے چار یا پانچ بڑے اخبارات سے وابستہ صحافیوں کی تنخواہوں میں گزشتہ 15-20 سالوں سے ایک روپے کا اضافہ نہیں کیا گیا، بلکہ کورونا وبا کے دوران اکثر اداروں نے تنخواہوں میں 30 سے 40 فیصد کی کٹوتیاں تک کر ڈالیں۔نوے فیصد اخبارات اور میڈیا کے اداروں میں میڈیکل کی سہولت موجود نہیں اور جہاں پر ہے وہاں نام نہاد انشورنس اسکیم کے ذریعے رلا رلا کر چند ہزار روپے واپس کیے جاتے ہیں، ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے میں 20-20 سالوں سے کام کرنے والے صحافیوں کے پاس صرف ابتدائی چھ مہینے کا کنٹریکٹ لیٹر ہے، اکثر اداروں میں عید اور محرم تک کی چھٹی نہیں ملتی، صحافیوں کے کوئی ورکنگ آورز نہیں، نہ ادارہ کسی طرح کا کوئی قرضہ دیتا ہے اور نہ کوئی بینک ان پر اعتبار کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
آخری عمر میں کئی ایماندار یا میری نظر میں بے وقوف صحافیوں کو کسمپرسی کی حالت میں مرتے ہوئے دیکھا ہے کیونکہ صحافت میں کوئی ریٹائرمنٹ پلان نہیں ہے، صحافیوں کو سوائے “ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن” کے چند ہزار روپے کے علاوہ کوئی پینشن بھی نہیں دی جاتی۔ایسے حالات میں جب کوئی صحافی کی “مین سورس اف انکم صحافت” والی بات کرتا ہے تو تن بدن میں آگ سے لگ جاتی ہے۔
کہاں کے صحافت اور کہاں کی مین سورس اف انکم؟
اکثر اداروں میں تین تین مہینوں تک تنخواہیں، جو بقول عظیم ثمر گزارہ الاؤنس سے بھی کم درجے کے وظیفے ہیں، ادا نہیں کی جاتیں، ایڈیٹر تنخواہ بڑھانے کا سنتے ہی ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے ان کی قوت سماعت عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہو، ایسے حالات میں اگر صحافی مین سورس آف انکم صحافت کے چکر میں پڑا رہے گا تو خیراتی اسپتال میں اذیت ناک موت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ چند کالی بھیڑوں کی طرح بلیک میلنگ کی جائے، حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی جائے، اور اپنا قلم ٹکے ٹکے میں بیچا جائے لیکن متبادل سورس اف انکم یعنی متبادل ذرائع آمدن صحافیوں کے لیے ناگزیر ہو چکے۔
جو لوگ اپنی تعلیمی استعداد بڑھا سکتے ہیں، ماسٹرز کریں، پی ایچ ڈی کریں اور اس شعبے میں رہیں نہ رہیں لیکن کم از کم الٹرنیٹ سورس اف انکم کے قابل ضرور ہو سکتے ہیں۔کوئی جز وقتی کاروبار شروع کریں، تعلیم کے بعد اپنے بچوں کو کسی کام، اسکلز یا کاروبار کی صلاحیت حاصل کرنے میں مدد فراہم کریں، کیونکہ یاد رکھیے غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے۔حصول رزق حلال عین عبادت ہے۔۔(وقار بھٹی)۔۔