sahafi or pansion

صحافی مخالف، ہتک عزت قانون

تحریر: حامد میر۔۔

دوہزار اٹھار ہ کے  انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے پر مسلم لیگ ن ہم سے خوش اور تحریک انصاف ناراض ہوتی تھی۔ 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بات کرنے پر مسلم لیگ ن ہم سے ناراض اور تحریک انصاف خوش ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک قانون کے ذریعہ میڈیا کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو ہم نے اس منصوبے کو آزادی صحافت کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ اس وقت شہباز شریف اور مریم نوز نے میڈیا کے خلاف عدالتیں قائم کرنے کی شدید مخالفت کی۔ اب شہباز شریف وزیر اعظم اور مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے پچھلے دنوں ہتک عزت کے خلاف ایک قانون منظور کرایا گیا جس کے تحت فوری سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ان عدالتوں کے ججوںکی تقرری بھی حکومت کرےگی۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور پیپلز پارٹی کے کچھ دیگر رہنما اس نئے قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن گورنر پنجاب کی عدم موجودگی میں قائم مقام گورنر ملک محمد احمد خان نے اس قانون پر دستخط کردیئے۔ اب اس نئے قانون کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ ہم کل بھی آزادی صحافت کے خلاف قانون سازی کی مزاحمت کر رہے تھے اور ہم آج بھی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن قانون بنانے والوں کے نام اور کردار بدل گئے ہیں۔ ہتک عزت کا قانون پاکستان کے عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس قسم کے قوانین کا مقصد صرف اور صرف صحافیوں کا بازو مروڑنا ہے اور ان کے ہاتھ میں زنجیریں پہنانا ہوتا ہے۔ پیکا قانون کے تحت عمران خان کے خلاف تو انکوائری بھی ہو سکتی ہے اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے لیکن اگر میرے جیسا کوئی صحافی اسی پیکا قانون کےتحت ایف آئی اے کو درخواست دے تو معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔ شکر ہے کہ ہم عوام میں شامل ہیں خواص میں شامل نہیں ہیں کیونکہ پیکا قانون بھی عوام کے لئے نہیں خاص لوگوں کے لئے بنایا گیا۔ اب ہتک عزت کا قانون بھی عوام کے لئے نہیں خاص لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ ہتک عزت کا قانون جس عجلت میں منظور ہوا اور جس پراسرار انداز میں قائم مقام گورنر نے اس پر دستخط کئے اس سے یہ واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قانون کو صحافیوں اور مسلم لیگ ن کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائےگا۔ کل کو اگر تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آگئی تو شاید وہ بھی آزادی صحافت کے خلاف نت نئے قوانین بنائے گی اورپھر مسلم لیگ ن آزادی صحافت کی علمبردار بننے کی کوشش کرے گی۔ ہم تو وہیں کھڑے رہیں گے جہاں پہلے سے کھڑے ہیں لیکن اب ہمیں پاور پالیٹکس کرنے والے سیاستدانوں کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہئے اور ان کی منافقت کا پردہ چاک کردینا چاہئے۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں