تحریر: ناصر جمال۔۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی نے عمران خان کے دور میں 628 افراد کو تین ارب ڈالر سے زائد کے بلا سودی قرضے دینے کا معاملہ نمٹا دیا۔پی۔ ڈی ۔ایم کی اتحادی سرکاری نے، اس پر طوفان برپا کیا ہوا تھا۔ عمران خان نے اپنے دوستوں کو نواز دیا۔جب ’’دراز قد‘‘ نور عالم، چیئرمین پی۔ اے۔ سی کے سامنے معاملہ آیا تو، گورنر اسٹیٹ بینک نے بریفنگ دی۔ سب کی سیٹی گم ہوگئی۔ پاکستان کے طاقتور ترین سیٹھوں کے معتبر ترین ناموں کی اکثریت، استفادہ کرنے والوں میں سرفہرست تھی۔پوری پبلک اکائونٹس کمیٹی لیٹ گئی۔ پتلی گلی سے نکلنے کے لئے، موقف اپنایا کہ معاملہ نیب اور ایف۔ آئی۔ اے کو بھجوانے سے صنعتی شعبے پر منفی اثر پڑے گا۔ ساتھ ہی بتایا گیا کہ نورعالم خان، کمیٹی کے اراکین سے اتفاق نہیں بھی رکھتے ہوئے، معاملے کو نمٹا گئے۔
قارئین!!!
آپ یقین کیجئے! جب سے یہ خبر پڑھی ہے۔ ہنسی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جی ہاں!!! ہمارا یہی ”نیشنل کریکٹر“ ہے۔ مجھ سمیت، سب، طاقت اورطاقتوروں کے سامنے، کان ہی نہیں پکڑتے، بلکہ لیٹ جاتے ہیں۔
آپ اس سے اندازہ کرلیں کہ ’’یہ لوگ، ملک ریاض کے خلاف 192 ملین پائونڈ کا (این۔ سی۔ اے) کیس چلائیں گے۔۔؟
توشہ خان، 628 افراد کو تین ارب ڈالر سے زائد کے بلا سودی قرضے، 192 ملین پائونڈ، ملک ریاض کیس، محض سیاسی بیانیے ہیں۔ یہاں مقدمات کے فیصلے، منصف نہیں، ’’متحد‘‘ کرتے ہیں۔ یہ اختیار ان کا ہے، کب کس کو ظالم، کس کو مظلوم اور کس کو حاکم بنانا ہے۔ بس چھڑی اور ابرو کا اشارہ ہوتا ہے۔ سیاسی طبلچی، منادی شروع کر دیتے ہیں۔ صحافی، میراثی بن جاتے ہیں۔ بھاگ لگے رہن، تخت و تاج زندہ باد کی صدائیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اشرافیہ، جب آئے گا عمران، کب جائے گا عمران، میاں آ، بھی جا،ایک زرداری، سب پر بھاری، میری جند میری جان، حافظ عاصم منیر، سمیت کچھ بھی کورس میں گانے کو تیار ہوتی ہے۔
سب اپنے گریبان میں جھانکیں کیا ایسا ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ مرتا ہے۔ بادشاہت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اب پاکستانی قوم سے زیادہ، اسے بہتر کون جانتا ہے۔چوہدری نثار انتہائی غصے میں تھے۔ لیڈر آف دی اپوزیشن، چیئرمین پی۔اے۔ سی۔ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بھی، کہنے لگے کہ میں ملک ریاض کونے عبرت بنا دوں گا۔ قلم کار نے کہا کہ نشان عبرت بنانے کا معاملہ بعد میں طے کر لیجئے گا۔ پہلے یہ تو معلوم کرلیں کہ، ملک ریاض، اس وقت پنجاب ہائوس میں کس کے ساتھ ہیں۔
چوہدری نثار چونکے۔ پتا کروایا۔ ملک ریاض، وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ، چائے اور سینڈوچز سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ چوہدری نثار علی خان کی حالت دیدنی تھی۔مجھے تو بعض اوقات حیرت ہوتی ہے۔ جب ہمارے معصوم لوگ، نواز شریف، عمران خان، زرداری، مولانا، اسفند یار، اچکزئی، یا، سپہ سالار کو ”امام انقلاب“ یا ، ہیرو بناتے اور بتاتے ہیں۔
جی ہاں!!! ایسا نہ کبھی تھا۔ نہ ہے اور شاید ہی نہ کبھی ہوگا۔ اس سب کے لئے تو ’’میں‘‘ مارنا پڑتی ہے۔ ریاست کے مفادات کا سوچنا پڑتا ہے۔ انتقام کی بجائے عدل کے پلڑے میں بیٹھنا پڑتاہے۔آپ ہی بتائیں! اس سے ہمارا، ہماری اشرافیہ کا کیا لینا دینا ہے۔ پیپلز پارٹی، حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہی ہے۔ اسمبلیاں 12 اگست کو ختم ہونگی۔ اسے 8 اگست کو تحلیل کردیتے ہیں۔ چار دن کے اقتدار کی قربانی کایہ قرض، قوم، ریاست اور ملک کیسے اتارے گا۔
آپ ہی بتائیں، اتنی عظیم لیڈر شپ، دنیا میں کہیں اور ہے۔ اب، اس ملک میں ’’لمز‘ نام کی ایک اور ’’بلا‘‘ متعارف کروائی جارہی ہے۔ اسے لینڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کا نام دیا گیا ہے۔ اسے کیا کمال کا خوبصورت لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔ ملک میں لاکھوں ایکڑ، بے کار پڑی زمین کو زیر کاشت لایا جائے گا۔
’’لمز‘‘ نامی دلہن کا گھونگھٹ، وزیر اعظم سے اٹھوانے کے بعد، اصل مالک اور دعویدار سامنے آگئے۔ سعودی عرب اور یو۔ اے۔ ای نامی ’’سربالے‘‘ بھی ساتھ دکھائے گئے۔ اصل دلہا بھی موجود تھے۔ وہی پرانا، معاملہ ہے۔ دوستوں نے مزید لاکھوں ایکڑ زمین لینا ہی لینا ہے۔ سعودی عرب اور یو۔ اے۔ ای کی فوڈ سیکیورٹی میں سرمایہ کاری ہوگی۔ ایم۔ بی۔ ایس کے سامنے گلف کے شیخوں کی کیا جرات ہے کہ وہ نگاہ بھی اوپر کرسکیں۔ شہزادے کے مفادات دوستوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تو ، ظاہر ہے، انھیں بھی خوش رکھنا ہے۔
قوم، اسے بھی قطری فٹبال کپ کی سیکیورٹی والا، بل ہی سمجھے۔ جیسے وہ، اربوں ڈالر، محفوظ ہاتھوں اور اکائونٹ میں پہنچ گئے۔ یہ بھی چلے جائیں گے۔
لہٓذا بہتری یہی ہے کہ وہ اس پر خوش ہونے کی بجائے، اپنا، کام کرے اور” ہڈ حرام“ نہ بنے۔ ویسے بھی اس مد میں جو، میک۔ اپ، شیک۔ اپ ہونا ہے۔ وہ ’’حسب منشا‘‘ ہوجائے گا۔
اس سے پہلے بھی پرویز مشرف ”وائٹ گولڈ ڈیری انقلاب برپا کرچکے ہیں۔ زراعت میں الگ سے ’’خونی انقلاب‘‘ لایا گیا تھا۔ پھر پتا نہیں اسے کون لے اڑا۔کالا باغ ڈیم سمیت، پانی کی تقسیم پر، ہم حکومتوں سے لیکر، نیچے انفرادی طورپر، کتوں کی طرح لڑتے ہیں۔صنعتوں کو بجلی، گیس، پانی دے نہیں سکتے۔ لاکھوں ایکڑ نئی اراضی آباد کرنے چلے ہیں۔ یہ کسی دیوانے نہیں ”جھلے “ کا خواب ہے۔ جو، اس سے قبل بھی، بہت سے لوگ پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں۔ڈاکٹر قدیر خان، ثمر مند مبارک، ڈاکٹر ظفر الطاف، کس، کس کا نام لکھوں۔ سردار احمد نواز سکھیرا نے بھی میلان فیشن ویک میں نئے، دروازے کھولے تھے۔ دس کھرب ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ پھر کیا ہوا۔
گندم کی ریکارڈ پیداوار، سیلاب اور بارشوں کے باعث ہوئی۔ ہمارے زرعی سائنسدانوں کا اس میں صفر حصہ ہے۔ آپ تو دو سالوں میں، اچھا بیچ تو دور کی بات، کھاد تک نہیں دے سکے۔ بمپر فصل کے باوجود، گندم امپورٹ کےمشورے ہورہے ہیں۔ پہلے اپنی فوڈ سیکیورٹی کا انتظام تو کرلیں۔ دوسروں کے لئے، بعد، میں سوچ لیجئے گا۔ اپنے، کسان کے لئے، ماڈرن، ٹیکنالوجی مہیا کرنے، تربیت، کھاد، بیج کے لئے، آپ نے کیا ۔؟ کیا ہے۔باقی رہ گئی زمین کی بات تو، وہ تو ہے ہی دوستوں کی۔ حافظ اور محافظ کا سب کچھ ہے۔ یقین نہ آئے تو مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھ لیں۔
خاقان عباسی، چیئرمین پی۔ آئی۔ اے۔ بنے۔ نقصان ختم نہ کرسکے۔ مگر ان کی اپنی ایئر بلو، منافع میں ہے۔ جہانگیر ترین کی زراعت سے لیکر شوگر ملز سب منافع ہی منافع ہے۔ مگر پاکستان کی تجارت، جس کے وہ پانچ سال وزیر بھی رہے۔ کہاں ہے۔ ہمایوں اختر، کی پیپسی اور دوسرے کاروبار، سب بہترین، وہ بھی تو کامرس کے وزیر تھے۔ پھر تجارت کیوں نہ فروغ پاسکی۔ زرداری، شریف برادران، خسرو پرویز، کس، کس کا نام لکھوں۔ شوگر کنگز ہیں۔ مگرملک پیچھے کی جانب کیوں جارہا ہے۔ آپ افواج پاکستان کی کارپوریٹ ایمپائر کی بات کرلیں۔ رزاق دائود سے لیکر شوکت ترین، اسحاق ڈار کی بات کرلیں۔ ان کے اپنے کاروبار، سب کے سب بہترین منافع کشید کرتے ہیں۔ اگر خسارے میں ہے تو یہ ملک اور اس کے اپنے تجارتی ادارے اور ٹیکس کا نظام ہے۔
پڑوسی ملکوں میں گاڑی کی قیمت نوے لاکھ، یہاں وہی گاڑی سات کروڑ کی کیوں ہے۔ اپنی گاڑیاں تو ایس۔ آر۔ اوز۔ پر نکلتی رہی ہیں۔ یہاں جو گاڑی نوے لاکھ کی ملتی ہے۔ وہ دنیا کا کوئی ملک لینے کو ہی تیار نہیں ہے۔ لگژری، محفوظ اور مضبوط گاڑی، کم رقم میں، اس ملک کے باسیوں کا کیوں حق نہیں ہے۔ اشرافیہ، اپنے پیٹ اور حیثیت کے مطابق، سرکاری گاڑیوں سے محظوظ ہوتی ہے۔ باقیوں کے منافع ہی ختم نہیں ہوتے۔
زمین تو کسان کی ہونی چاہئے۔ اسے فصل یا باغ اگانے اور سنبھالنے کے لئے، سہولیات ملنی چاہئیں۔ پانی کی دستیابی یقینی ہو۔ آخر، ہم اس قوم کے ساتھ’’لمز‘‘ جیسے کھیل، کب تک کھیلیں گے۔
پہلے ہی لاکھوں ایکڑ اراضی ریٹائرڈ دوستوں اور ان کے بچوں کے پاس ہے۔ قوم کے بچوں کا کب سوچیں گے۔ نہ آپ سوچیں گے اور نہ ہی بے حس قوم، لہٰذا یہاں بدانتظامی، بے ایمانی کے علاوہ کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ جو کہ پہلے ہی ا چکا ہے۔(ناصر جمال)۔۔