تحریر: ناصر جمال
شاہ جی‘‘ عباس اطہر مرحوم نے اپنے آخری ایام میں کہا کہ غلطی ہوگئی۔ ہم صحافت کو مشن سمجھتے رہے۔ جبکہ یہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہے۔ برادرم شہزاد فاروقی کہتا ہے کہ صحافت میں مشقت زیادہ اور معاوضہ کم ہے۔ کوئی اور کام اس ڈھنگ سے کرتے تو، آسودگی ہوتی۔ مگر ہم نے یہ ’’بلا‘‘ اپنے لئے خود چُنی ہے۔
یہ بے روزگاری ہی تھی۔ جو میرے استاد، محسن، قلم پکڑ کر سکھانے والے ’’ سید تنویر عباس نقوی‘‘ کو کھا گئی۔ ابھی تو، انھیں زندگی کا ملکہ (40سال) حاصل کئے، صرف دو ہی سال ہوئے تھے۔ وہ بے روزگاری کا غم مٹاتے ہوئے، خود مٹ گئے۔
ضیاء شاہد، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ورکر کش اور صحافیوں کا مجرم ہے۔ اس نے صحافی ہونے کے باوجود، اپنے قلم کار بھائیوں اور بچوں کا کیا خوب خون چوسا۔ گدھ کی طرح ان کی ہڈیوں اور گوشت تک کو نوچ ڈالا۔ دنیا سے مقروض گیا۔ جس اولاد کیلئے یہ سب کچھ کیا۔ وہ اس کے مرنے پر، اس کے قرضوں کی ادائیگی سے انکاری ہے۔ بے شمار دولت، اُسے لعنت سے نہیں بچا پا رہی۔ میں نے ڈیجیٹل میڈیا پر، اُن کے مرنے پر سخت الفاظ لکھے۔ ایک صاحب کہنے لگے، انھیں معاف کردیں۔ یہ ایسی باتوں کا وقت نہیں ہے۔نوشین نقوی نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’معاف تو ہم نے ابھی تک تنویر عباس نقوی کو بھی نہیں کیا۔‘‘ کسی چیز کے پیچھے راہ فرار اختیار کرتے۔ وہ ہمیں سب کو اکیلا چھوڑ گیا۔ وہ ہماری طاقت اور روشنی تھا۔
مجھے یاد ہے۔ میں اپنی زندگی کا پہلا، تجزیہ لکھ کر اُن کے پاس گیا۔ وہ روزنامہ اساسٖ؍ لشکر کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ ابھی انہوں نے پہلا ہی کڑوا گھونٹ بھرا تھا۔ تجزیئے کی دو چار لائنیں پڑھیں اور کہا کہ تجزیئے میں سے فالتو الفاظ نکال کر لائو۔ میں نے اس ’’اینگل‘‘ سے اپنی تحریر پڑھی اور دیکھا کہ واقعی بہت الفاظ، غیر ضروری، تکرار کا باعث تھے۔ ’’ری رائٹ‘‘ کیا۔ ابھی دوسرا گلاس ہی شروع کیا تھا۔ تجزیئےکے اوپر تین کالم ، بیک پیج، اپر ہاف کی ہدایت لکھی اور اُسے نیوز روم بھجوا دیا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔اور کہا کہ ’’منٹو‘‘ کو پڑھا ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں۔کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، سمیت کئی افسانوں کے نام گنوا دیئے۔ پوچھا کہ ’’منٹو‘‘ کے جملے کی بُنت (کنسٹریکشن) پر غور کیا ہے۔ میں بے دھڑک اعتراف کیا کہ منٹو کو چھوڑیں، اس زاویئے سے تو، آج تک کسی رائٹر کو نہیں پڑھا۔ منٹو کی کتاب’’منٹو کے سیاسی افسانے‘‘ دی۔ (جس کے وہ خود تخلیق کار تھے) اس پر لکھا، ’’ناصر جمال کیلئے، اس دُعا کے ساتھ کہ اسے لکھنا آجائے۔ساتھ ہی کہا کہ منٹو کا جملہ چھوٹا ہوتا ہے۔ بڑے جملے میں ربط اور ٹھہرائو رہتا ہے۔ اس کے جملے لٹکتے نہیں ہیں۔ سیدھے کھڑے رہتے ہیں۔
گذشتہ کئی دنوں سے، بہت ہی سینئر احباب میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اچھی اُردو لکھ رہے ہو۔‘‘ ’’دی باس‘‘ ناصرہ زبیری، برادرم رئوف کلاسرہ، طاہر حنفی، امریکہ سے عارف عثمانی( جو میرا ہر کالم، وہاں پر اپنے اخبار کی لازمی زینت بناتے ہیں) عزیز عاطف شیرازی، تنویر ہاشمی، شیخ ایوب ناصر، شہزاد فاروقی، حاجی عبدالحمید قائم خانی، کیپٹن جاوید اکبر، بزرگوار، احسن راجہ صاحب اور کتنے ہی دوست اور ہمدرد کہتے ہیں۔ میں شرماتا ہوں۔ اپنی کم مائیگی اور نالائقی کا احساس ہے۔ خوشی ایک بات کی ہے کہ ’’محاسبہ‘‘ سید تنویر عباس نقوی کا کالم تھا۔ چلیں، ویسا تو نہیں لکھ سکتا، کچھ تو قدرت نے لاج رکھ لی۔
سید صفدر شاہ صاحب جو کراچی صحافت کی شان، مان اور پہنچان ہیں۔ وہ بیماری اور بے روزگاری کا کتنے ہی سال شکار رہے۔ ابھی بھی ہیں۔ نادر شاہ عادل جیسا، کمال قلم کار صحافی، بلکہ باغی صحافی، اولاد اور مالی مشکلات کے سامنے،کونہ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ دو دہائیاں ہونے کو آئی ہیں۔ ابھی تک ایکسپریس کے ایڈیٹوریل میں قید ہیں۔ زبان اور الفاظ پر جو عُبور انھیں حاصل ہے۔ جس طرح سے وہ خیالات کو سُنار کی طرح بنتے ہیں۔ کمال ہے۔ مگر انھوں نے اپنے تمام قلم کے اوزار اور خیالات، کہیں ’’دفن‘‘ کر دیئے۔ یہی نہیں، انہوں نے تو اپنا ’’لیاری‘‘ بھی چھوڑ دیا۔ سہیل ظفر مرحوم جیسا’’ جن‘‘ بھی زندگی اور بے روزگاری سے لڑتا رہا۔ مجھے صحافت کے کارزار میں لانے والے عمران بٹ صاحب، صحافت کو ہی تقریباً خیر آباد کہہ گئے۔ اور کتنے ہی ہیں۔ جو ابھی تک لڑرہے ہیں۔ طاہر نور، آغاخالد، خالد چوہدری، فاروق فیصل خان، الیاس چوہدری، سجاد لاکھا، فرخ نواز، اور ان جیسے سینکڑوں جنہوں نے ہار نہیں مانی۔
سب سے زیادہ نقصان اور چوٹ، تنویر عباس نقوی، فاروق فیصل خان، ضیاء الدین، ناصر ملک، نادر شاہ عادل، طاہر نور جیسی دانشور کلاس نے کھائی ہے۔ ایک طویل فہرست ہے۔ایڈیٹر کا ادارہ ختم کر دیا گیا۔ دانشور صحافیوں کو اچھوت بنا دیا گیا۔ دو نمبر لوگوں کے ہاتھوں میں صحافت کی باگ دوڑ آگئی۔ انہوں نے صحافت کے پائوں میں گھنگرو باندھے اور اسے سیاستدانوں اور سیٹھوں کے حرم میں پیش کردیا۔
کتنی ہی عجیب بات ہے۔ ہمارے صحافتی بزرگ اور ہم، وہ نسل تھے جنہوں نے صحافت میں غربت، بھوک، سختی، جبر، ایڈوائس، بے روزگاری، ریاکاری، سب دیکھا، برداشت کیا۔ مقابلہ کرتے رہے، ہار نہیں مانی، کتنے ہی تھے جنہوں نے حالات، جبر، مراعات کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ تخت و تاج زندہ باد۔ پاک روچی، ڈالر پائونڈ پائندہ باد ،کے نعرے لگائے۔ یہ نہیں کہ مزاحمت نہیں کی۔ مگر یہ لوگ جلد ہی ٹوٹ گئے۔ ٹی۔ وی میڈیا میں جو نئے لوگ آئے۔ آج بیس سال ہونے کو ہیں اور وہ ابھی تک ٹکر رپورٹر ہی ہیں۔ کوئی پر چیاں پڑھ رہا ہے۔ کوئی آئی۔ ایس۔ پی۔ آر۔ کی پرچی پراقبال بلند کروا رہا ہے۔ کسی کے پاس سیاستدان کا ڈنڈا ہے۔ کسی کے پاس دوستوں کا انڈا اور ایجنڈا ہے۔ جو نئے بچے آئے، اور ان کی تربیت ان جیسے لوگوں نے کی۔ وہ حوصلہ جلد ہار جاتے ہیں۔ بُوم اور گلیمر، انھیں میڈیا کی خونین وادی میں لے آیا۔ یہ ٹیپ بال پانچ، پانچ اوورز کے کھلاڑی ہیں۔ جبکہ صحافت ٹیسٹ میچز کی متواتر سیریز کا نام ہے۔ آپ شاہد مسعود، مبشر لقمان، کامران شاہد، کس ،کس خاتون یا مرد اینکر کا نام لوں۔ سب کی چمک، دمک، ماند پڑ گئی۔ مگر جو لوگ صحافت کی پرخوار وادیوں میں اپنا ’’لہو‘‘ بہا کر آئے تھے۔ وہ آج بھی کھڑے ہیں۔ چاہے، وہ مبشر زیدی کی صورت میں ہوں یا کہ ندیم ملک۔ رئوف کلاسرہ، خلیق کیانی، ظفر بھٹہ، رانا غلام قادر، سعود ساحر مرحوم، (کیا کہنے) اور بہت سے ہیں۔ مگر گنتی والے ہیں۔ یہی ’’آخری چٹان‘‘ ہیں۔
باقی کو تو ’’صاحب اختیار منگول‘‘ کھا اور جھکا چکے ہیں۔ کتنوں کا سیھٹوں نے اپنی یونین کے ذریعے شکار کرلیا۔ جیسے ہمارا دوست مبارک زیب خان ایسے ہی ’’چنڈو‘‘ خانے میں پھنسا ہوا ہے۔ جی۔ ایم۔ جمالی کے علاوہ کوئی یونین لیڈر بتا دیں۔ جس نے کوئی کردار ادا کیا ہو۔ اسلام آباد اور پنجاب کے صحافیوں کو چھت کے حوالے سے کردار، چوہدری برادران، رانا طاہر اور حافظ طاہر خلیل کا ہے۔ باقی سب حاشیہ آرائی ہے۔ جہاں’’چھت‘‘ کے حوالے سے اس کا صحافیوں کا فائدہ ہوا۔ وہیں بہت بڑا نقصان بھی۔ صحافی، پراپرٹی ڈیلر بن گئے۔
قارئین!!! آپ یقین کریں۔ ’’عمران خان اور دوستوں‘‘ کی وجہ سے میڈیا پر سخت وقت آیا۔ چاہتے تو ،صرف مشتاق منہاس، افضل بٹ، انور رضا ہی کافی تھے۔ بڑا میڈیا ہائوس کھڑا کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔کامران خان، طلعت حسین وغیرہ تو، الگ سے بڑی مچھلیاں ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آج صحافتی لیڈر، کیوں پریس کلبز کی جان نہیں چھوڑتے۔ اگر یہ تھینک ٹینک لیس جاب ہے تو، یہ دوسروں کوکیوں نہیں آنے دیتے۔ یہاں بھی مفادات، شنید ہے کہ کروڑوں کی بجائے اربوں میں چلے گئے ہیں۔اعلیٰ سطحی رابطے ہوتے ہیں۔ کروڑوں کی گرانٹیں آتی ہیں۔ کارڈ اور لیٹر چلتے ہیں۔ سب کے کام ہورہے ہیں۔ ماسوائے غیر جانبدار مظلوم صحافی اور میڈیا ورکرز کے۔ آج میر شکیل الرحمٰن کو کوئی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتا ہے تو ،صحافتی تنظیموں کے سرخیل، مرمٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ صحافت کرتے نہیں۔ سیٹھ لاکھوں کی تنخواہیں، کس مد میں دیتے ہیں۔
اب تو، بڑے، بڑے کاروباری گروپ، صحافت کی چھتری کے نیچے، خوب پھل، پھول رہے ہیں۔ کسی ادارے کی جرأت نہیں ہے کہ وہ اُن کی یونیورسٹی ، کالجز، ہائوسنگ سوسائٹیز، قبضوں، گھی ملوں اور مفادات کی طرف دیکھے۔ صحافیوں کوصحافی کی بجائے’’پروٹوکول آفیسر‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ وہ مالکان اور سیٹھوں کے صُبح و شام تک ذاتی کام کررہے ہیں۔ جو ایف۔ بی۔ آر کے انسپکٹر سے تھر، تھر کانپتے تھے۔ اب چیئرمین ایف۔ بی۔ آر۔ اُن سے کانپتا ہے۔ کبھی ان کو ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس مان نہیں تھا۔ اب چیئرمین، ان کا انتظار کرتا ہے۔ یہ سب صحافیوں کی برکات ہیں۔ ان کے لیڈروں کا ویژن ہے۔ ایک نوکری کیلئے وہ ’’طوائف‘‘ سے بھی گرگئے ہیں۔ وہ شکاری کتوں کی طرح مالکان اور سیٹھوں کے لئے شکار کرتے ہیں۔ غالب ترین اکثریت، اسی طریق پر چل رہی ہے۔ وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جوایجنڈا ٹو نہیں کرتے۔ وہ پھر رئوف کلاسرہ کی طرح ، مستعفیٰ پر مستعفیٰ ہوتے ہیں۔ کبھی بیگم سے استعفیٰ بھجواتے ہیں، کبھی خود کا استعفیٰ بجھواتے ہیں۔
صحافیوں کی یونینز کا کردار تباہ کن ہے۔ یہ سیاستدانوں، مالکوں اور سیٹھوں کے ٹولز ہیں۔(ماسوائے نانگا مست کے) یہ حکومتوں کو ڈرانے کیلئے ہیں۔ انھیں مالک کے اشارے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اور یونینز کے نوٹس کا مطلب ہے کہ عوام اور صحافیوں کی خیر نہیں ہے۔
فہیم مغل کی دردناک موت نے صحافیوں کے دردمند طبقے کو روح تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ محترم سجاد لاکھا ؔنے اسی تناظر میں شعر بھیجا۔
زندوں کو تو درگور کیا جاتا ہے اکثر
اس دور میں لاشوں کی تجارت کا چلن ہے
لیڈر ہیں مرے درد کے احساس سے عاری
کن لوگوں کے ہاتھوں میں میرا پاک وطن ہے
انھوں نے کہا کہ پریشان حال دوستوں کو حوصلہ دینا ہوگا۔ وہ فہیم کی طرح ہمت نہ ہاریں۔ بلکہ استحصال کرنے والے میڈیا سیٹھوں، ان کے کاسہ لیس صحافی لیڈروں، ان کی سرپرست حکومتی و ریاستی مشینری کا گریبان پکڑیں۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار محترمہ ناصرہ زبیری نے بھی کیا۔ حیران ہوں، ورکر خود کشی کی بجائے ان کا دامن کیوں نہیں پکڑتے۔ جواُن سے کام لیتے ہیں اور معاوضہ نہیں دیتے۔فہیم مغل ،سنا ہے چار بچیوں اور بیوہ کو اس ظالم دنیا کے حوالے کرگیا۔ لیڈر، اب فہیم کی لاش بیچیں گے۔ یہ الگ سےایک المیہ ہے۔ عابد عبداللہ، ایک دن کہنے لگے ،مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحافتی سیٹھوں کو ادارے چلانے میں نقصان ہورہا ہے۔ مسئلہ یہ ہےکہ ان کے نفع میں نقصان ہوگیا ہے۔ خسارہ تو، کبھی رہا ہی نہیں۔آپ ان سب کے آڈٹ کروا لیں۔ ان کی ایمپائرز دیکھ لیں۔ ان کے اشتہارات، مراعات دیکھ لیں۔ سرکار سے ذاتی کام اور مفادات کا شمار نہیں ہے۔ کسی یونین لیڈر کی تنخواہ رکی ہو تو ،بتا دیں۔
اگر پیسہ نہیں ہے تو، وہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لئے نہیں ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ جان جمالی نے، صحافتی لیڈروں کو میرے سامنے کہا کہ ویج بورڈ کو چھوڑو۔ حکومت دبائو میں ہے۔ اپنی تنخواہوں، مراعات، نوکریوں کے تحفظ پر قانون سازی کروا لو۔ مگر سیٹھوں اور مالکوں کے ایجنٹ نہیں مانے۔ انہوں نے بھی تو ،سیاست اور وفاداری کرنی ہے۔ اگر وہ بات مان لیتے تو، کسی فہیم کو خود کشی نہ کرنا پڑتی۔(ناصرجمال)۔۔