تحریر: صابر بخاری
گزشتہ روز ایک پولیس افسر دوست نے واٹس اپ پر ایک لنک میسج کیا ،اوپن کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ایک ڈبہ ویب سائٹ کے ایک کرائم رپورٹر نے کیا کیا الزمات تھے جو اس پولیس افسر پر نہیں داغے تھے ۔موصوف نے ڈکیت ،چور وں کے سرغنہ سمیت نجانے کیا کچھ الزمات تھے جو ان پر نہ تھوپے ہوں ۔نوائے وقت میں برسوں کرائم افیئرز کا انچارج رہا اورکرائم افیئرز پر سینکڑوں آرٹیکلز لکھے ،مگر کوئی ایک آرٹیکل بھی ذاتی عناد یا کسی کی ذات کو اچھالنے کیلئے نہیں لکھا ۔یہاں دو دن کے کرائم رپورٹرنئی گاڑی نکلوالیتے ہیں۔ الحمد للہ راقم برسوں سے اس شعبہ سے وابستہ ہے اور آج تک ایک ٹیڈی پیسہ کا بھی روادار نہیں ۔ ایک بارسابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور (موجودہ ڈی آئی جی پنجاب )عبدالرب چودھری کے بارے میں سپریم کورٹ نے مثالی ریمارکس دیے ۔یہ جھنگ کا ایک کیس تھا جو سپریم کورٹ نے عبدالرب چودھری کو دیا اور عبدالرب چودھری نے جانفشانی سے اس کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچایاتھا،سپریم کورٹ نے بھی اس کارکردگی پر مثالی ریمارکس دیے تھے ۔ایک پولیس افسر دوست نے کہا کہ اس پر کچھ لکھ دو تاکہ اچھے افسران کی حوصلہ افزائی ہو۔عبدالرب چودھری سے مل کر معلومات لیں اور آرٹیکل لکھا ۔جس دن آرٹیکل چھپا ،پی آر او ڈیپارٹمنٹ سے کاپی ان تک پہنچی توعبدالرب چودھر ی نے شکریہ ادا کیا ۔پھر کئی ماہ گزر گئے ،ایک دن اسی پولیس افسر دوست کی کال آئی کہ عبدالرب چودھری صاحب یاد کر رہے ہیں ۔جب وہاں پہنچا تو مخصوص دھیمے اور شیریں لہجے میں چودھری صاحب بولے ،یار بخاری یہاں تو ایک صحافی اگر چھوٹی سی خبر بھی لگا دے تو دوسرے دن ،بیسیوں کام لیے پہنچ جاتا ہے ،آپ نے پورا آرٹیکل لکھا مگر آج تک ایک کام بھی نہیں کہا ،اس لیے میں نے آپکا خصوصی شکریہ ادا کرنے کیلئے آپکو بلایا ہے ۔میں نے کہا چودھری صاحب میں صحافت ،صحافت کیلئے کرتا ہوں ،تھانے پکڑنے اور مال بنانے کیلئے نہیں ۔بہر حال اسی بناء پر چودھری صاحب سے آج بھی پیار کا رشتہ قائم ہے ۔
بات کر رہا تھا صحافی مافیا کی جس نے ملک کے طول و عرض میں بلیک میلنگ کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔چاہے کسی بڑے شہر کا صحافی ہو یا کسی علاقے کا نمائندہ ،اکثر ادارے انکے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔لوٹ مار کیلئے پورے پورے گروپ مارکیٹ میں وارد ہیں ۔کرائم رپورٹر کیلئے تو سونے پہ سہاگہ ہوتا ہے کہ پولیس افسر جیب میں ہوتے ہیں اس لیے ڈٹ کر بلیک میلنگ کرتا ہے اور چند ہی دنوں میں گاڑی ،پوش علاقوں میں رہائش نجانے کیا کچھ بنا لیتا ہے ۔کرائم رپورٹر ہی نہیں یہاں تو صحافت کے بڑے بڑے نام جو اکثر ادارتی صفحات پر صفحے ’’کالے ‘‘کرتے اور ٹی وی پر سرخی پاؤڈر لگا کر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں ،اکثر کرپشن ،دو نمبری اور بلیک میلنگ میں لت پت ہیں ۔
جنگ اور جیو کے مالک کس طرح حکومتوں کو بلیک میل کرتے رہے اور اربوں روپے کے ٹیکس معاف کراتے رہے کون نہیں جانتا ؟نوائے وقت گروپ برسوں ججوں کو جیب میں رکھ کر ویج بورڈ ایوارڈ سے بچتا رہا ۔صحافی بابو کس طرح آئین وقانون کو پاوں تلے روندتے رہے ،اس کی جھلک اس واقعہ سے خوب عیاں ہو جاتی ہے ۔ایک بار ایک جج کو ویج بورڈ ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا ،موصوف نے ایک صحافتی ادارےکے کرتا دھرتاکو کہا کہہ میاں صاحب سے سفارش کروا کر میرے بیٹے کو ملتان جو ڈیشل کمپلیکس میں ملازمت دلوا دیں ،بس پھر کیا تھا موصوف جج نے بیٹے کیلئے ملازمت لے لی اور جب تک وہ ویج بورڈ ایوارڈ کے جج رہے کیس فائلوں میں دبا رہا ۔خبریں گروپ نے کس طرح زمین اور بلڈنگ ہتھیائی اور ایک ایمپائر قائم کی، کیا ریاستی اداروںسے یہ سب اوجھل ہے ؟ملک میں زرد اور بلیک میلنگ کی صحافت کا آغاز اگر خبریں گروپ سے گنا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔پاکستان میڈیا گروپ کس طرح اکبر بھٹی سے اینٹھا گیا ،اور بعد میں مالکان نے کس طرح ایمپائرز کھڑی کیں کون نہیں جانتا ؟اب تو پٹرول بھی ’’چوسنے ‘‘لگے ہیں اور بھاشن انکے من من کے ہوتے ہیں ۔یہ چند جھلکیاں ایسے اداروں کی ہیں جو خود کو نظریاتی اور حقیقی صحافت کا علمبردار گردانتے ہیں ۔مگر ان کی حقیقت دیکھیں تو گھن آتی ہے ان کے کردار و اطوار سے ۔باقی صحافتی اداروں کا حال بھی جوں کا توں ہے۔
آجکل چھوٹے موٹے ڈبہ ٹائپ ویب چینل اور نیوز ویب سائٹ بنا کر کسی کی عزت داؤپر لگانے کا کھیل زوروں پر ہے۔اکثر دو نمبر مافیا نے ایسے ویب سائٹ نیوز ادارے بنا رکھے ہیں ،جن کا مقصد صرف بلیک میلنگ ہے۔جس پولیس افسر کیخلاف خبر لگائی گئی ،میں اپنی نہیں مگر انکی گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ ایک ٹیڈی پیسہ بھی خود پر حرام سمجھتے ہیں.اسی طرح چند ماہ قبل چیئرمین ڈی جی خان تعلیمی بورڈ کو بعض نام نہاد صحافی بلیک میل کرتے رہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایمانداری سے کام کرنے والے افسران کو متعلقہ ادارے کا مافیا صحافت کی بعض کالی بھیڑوں کیساتھ ملکر بلیک میل کرتا ہے اور ریاست ان افسران کا تحفظ اور سپورٹ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔پولیس افسر دوست اور چیئرمین تعلیمی بورڈ ڈی جی خان بھی افسردہ تھے کہ کیا صحافت اسی کا نام ہے کہ بلیک میل کرنے کیلئے کسی کی بھی عزت کو اچھال دو؟ خان صاحب احتساب احتساب کا راگ الاپ رہے ہیں ،کیا صحافی احتساب سے مبرا ہیں ؟خان صاحب جب تک تین جے ،یعنی جج ،جرنیل اور جرنلسٹ احتساب کے شکنجے میں نہیں آئیں گے صرف سیاستدانوں کے احتساب سے کچھ بھی بدلنے والا نہیں ۔وقت کا تقاضا ہے کہ صحافتی شعبہ میں اصلاحات کی جائیں اور اس شعبہ میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیا جائے ۔(صابر بخاری)۔۔
(صابر بخاری کا شمار پنجاب کے سینئرصحافیوں میں ہوتا ہے، یہ تحریر ان کی وال سے اڑائی گئی ہے، جس سے آپ کا اور ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔اگر کسی کو اس تحریر سے اختلاف ہے تو ہمیں لکھ کر بھیج سکتا ہے ہم اسے بھی ضرور شائع کرینگے، علی عمران جونیئر)