تحریر: راجہ ریاض،سیکرٹری جنرل پی ایف یوجے ورکرز۔۔
صحافت کے اہل دانش و صاحب حکمت لوگوں سے ایک بات۔۔ پی ایف یو جے ورکرز نے مشاہدہ کیا ہے کہ اج کے دور میں صحافی ہونے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے کہ صحافی کون ہے اور کون صحافی کے مروجہ ضوابط پر قواعد پر پورا نہیں اترتا ہے صحافتی تنظیموں نے صحافی کی جو تعریف( جو کہ 1973 کے نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ میں بھی درج ہے اور 2021-22 کے کے پی کے قانون میں بھی شامل ہے) کی ہے 90 فیصد سے زائد لوگ اس پر پورا نہیں اترتے زیادہ تنازعہ یوٹیوبرز کے انے سے ہوا ہے ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی اور کنٹینٹ پروڈیوسر کی تقسیم ختم کر دی ہے ایسے میں ضرورت ہے کہ جس طرح تمام شعبوں میں لائسنسنگ کی جاتی ہے شعبہ صحافت میں بھی کوئی ایسا اہتمام کیا جائے جس میں کم از کم تعلیم معیار مقرر کیا جائے کم از کم تربیت کا دورانیہ مقرر کیا جائے اور اس کے علاوہ ہماری تجویز ہے کہ ایک ریگولیٹری باڈی جو صحافیوں کی قائم کردہ ہو صحافیوں پر مشتمل ہو وہ صحافی کو باقاعدہ لائسنس جاری کرے اگر لفظ لائسنس پر اعتراض ہو تو ایکریڈیشن کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے یہ تنظیمیں پہلے صوبے کی سطح پر اور اس کے بعد قومی سطح پر قائم ہونی چاہیے صحافی اپنے میں سے پنجاب بار کونسل کی طرز پر صوبائی ادارہ قائم کریں اور جو بھی صحافت کے اندر انا چاہتا ہو وہ وہاں پر اپنی درخواست گزارے۔ اس کا کم از کم معیار مقرر کر کے ایک ضابطہ اخلاق پر پورا اترنے والوں کا امتحان لے اور ان کو صحافی ڈکلیئر کرے تمام حکومتی اور غیر حکومتی ادارے صرف اسی کو صحافی تسلیم کریں جو اس ادارے کے پر معیار پورا اترتا ہو اور تسلیم شدہ ہو یہ ایک تجویز ہے جو 1999 میں دی گئی تھی اج ہم اس کو دہرا رہے ہیں کیونکہ اج اس کی بہت ضرورت محسوس کی جا رہی ہے صحافت کے اہل علم اور اہل حکمت دوستوں سے اس پر سنجیدہ بحث کی توقع کی جاتی ہے۔۔ پی ایف یو جے ورکرز کی جانب سے اس تجویز پر مثبت رائے کی توقع کی جاتی ہے۔