تحریر۔ عاجز جمالی
حسب معمول دفتر میں ہی اپنی نشست پر ایک پیکیج کی تیاری کے لئے انٹر نیٹ سے معلومات جمع کر رہا تھا۔ فون پر نا مکمل ہندسوں والے نمبر سے کال آ رہی تھی۔ ہیلو کے بعد جمالی صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں کوئٹہ سے کراچی پوسٹنگ ہوئی ہے۔ آپ اپنے جمالی بھائی ہو۔ آپ سے ملاقات کرنی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ “ آپ کس محکمے میں ہو” بولا کہ آپ کو نمبر دیکھ کر اندازہ تو ہوگیا ہوگا، لیکن چھوڑیں ان باتوں کو جب ملیں گے آپ پہچان لیں گے۔ آپ کی ایک ملاقات ہے مجھ سے۔ میں سمجھ تو گیا تھا کہ موصوف کسی حساس ادارے سے تعلق رکھتے تھے اور لہجے سے بلوچستان سے تعلق محسوس ہوا۔ میں نے فوری کہا کہ آپ میرے دفتر آجائیں زینب مارکیٹ۔ کہنے لگے نہ آپ کے دفتر نہ میرے دفتر۔ ہم کسی تیسری جگہ پر ملاقات کریں گے۔ پھر کہا کہ کل فلاں ہوٹل میں فلاں وقت ملتے ہیں۔ میں نے کہا اوکے۔ دوسرے دن میں دفتر کی گاڑی میں ہوٹل گیا۔ “ چاندنی “ میں میرے میزبان پہلے سے موجود تھے۔ موصوف کو سفید رنگ کی شلوار قمیص زیب تن تھی۔ میں پینٹ شرٹ میں تھا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا اور مجھے بھی ان کا چہرہ شناسا سا لگا۔ ملتے ہی میں اس خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ موصوف سے پہلے کہاں ملاقات ہوئی۔ ہم نے روایتی باتوں سے گپ شپ کا آغاز کیا۔ اپنے اپنے علاقوں اور جمالی قبیلے کے معززین کا ذکر کیا بلا آخر ہم سیاسی موضوعات پر آگئے۔ ہم دونوں پلیٹ میں ریفریشمنٹ اور جوس لے کر آئے تھے۔ جمالی صاحب حساس ادارے میں میجر لیول کا افسر تھا اور ان کی ذمے داری سیاسی سیل میں تھا( آج کل وہ برگیڈیئر ہیں ) ان کی اہم ذمے داری یہ تھی کہ غیر ملکی قونصلیٹس میں جو سیاست دان جاتے ہیں ان کی سرگرمیوں کی رپورٹس ہیڈ کوارٹر کو بھیجنا۔ اور یہ دیکھنا کہ پاکستانی سیاست دان غیر ملکی سفارت کاروں سے کیا باتیں کرتے تھے۔ اس زمانے میں بیورو چیف رشید چنہ نے برطانیہ۔ امریکہ سمیت دیگر قونصلیٹس کی کوریج کی ذمے داری مجھے دے رکھی تھی۔ جمالی صاحب کہنے لگا کہ آپ میرے جمالی بھائی ہو۔ مجھے آپ کی تھوڑی سی ہیلپ چاہئے۔ میں نے کہا کہ بحثیت جمالی یا برادری کے ناطے میں حاضر ہوں۔ کہنے لگا کہ میرا فلاں بندا ایک بار آپ سے برطانوی قونصلیٹ کے باہر ملا تھا ( چھوٹے ملازم کا جان بوجھ کر نام نہیں لکھ رہا وہ بھی بلوچستان سے تھا مگر اچھی سندھی بول لیتا تھا) میں نے کہا اچھا اچھا وہ بھی آپ بندہ تھا۔ کہنے لگا اسی سے مجھے پتہ لگا کہ آپ سفارت خانوں میں جاتے ہیں۔ سو مجھے یہ ہیلپ یہ چاہئے کہ آپ وہاں آنے والے افراد کے بارے میں مجھے معلومات دیتے رہیں۔ آپ میرا کام کریں۔ جب تک میری پوسٹنگ ہے آپ حکم کریں اگر میں آپ کو کوئی فاعدہ دے سکتا ہوں۔ مجھے بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ یہ شخص کس انٹیلیجنس ایجنسی کا افسر تھا۔ پھر انہوں کشمور میں ہونے والی اس پہلی ملاقات کا بھی حوالہ دیا جب کراچی سے آئی ایس پی آر والے صحافیوں کا پورا جتھا ڈیرہ بگٹی لے کر گئے تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی نے چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ روپوشی اختیار کر لی تھی۔ اب مجھے وہ پہلی ملاقات یاد آگئی تھی۔ خیر میں نے ان کہا کہ “جمالی صاحب آپ نے غلط بندے کا انتخاب کیا ہے۔ پھر میں ان کو شاہ لطیف کی شاعری کی ایک سطر سنائی۔
میں نے کہا کہ بحثیت جمالی آپ میرے بھائی ہو۔ کبھی میرے گھر ملیر غریب خانے پر آکر کھانا کھا لو۔ لیکن میں نے زندگی بھر جاسوسی کا کام نہیں کیا۔ پلیز آئندہ اس نیت سے مجھے کال مت کرنا۔ وہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ تین چار ماہ کے بعد میجر صاحب کا کراچی سے تبادلہ ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی اکتیس سالہ صحافتی زندگی میں ایسی بہت ملاقاتیں کیں۔ لیکن ہمیشہ اپنے ایمان اور ضمیر کو مضبوط رکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بطور صحافی کسی بھی محکمے کے کسی بھی افسر سے دوستی یا تعلق رکھنا بری بات نہیں۔ لیکن کسی بھی صحافی کو کسی کا بھی الہ کار نہیں بننا چاہئے۔ جب صحافی ایک بار کسی بھی ایجنسی کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے تو پھر اس کو پوری زندگی ان کے لئے کام کرنا پڑتا ہے کسی بھی انکار کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ میں نے اوپر صرف ایک واقعہ تحریر کیا ہے مجھے تیس برس کے دوران پانچ چھہ بار ایسے مواقع دستیاب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی دنوں میں امت اخبار کی رپورٹنگ کے دوران امت کے چیف ایڈیٹر رفیق افغان نے مجھے ایک برگیڈیئر کے پاس بھیجا جس سے مجھے صرف کچھ دستاویزات چاہئے تھے۔ جب ملنے گیا تو برگیڈیئر صاحب نے چائے کی پیشکش کی۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ تعارف تو میں پہلے ہی کرا چکا تھا۔ مجھے کہنے لگا کہ جمالی سردار میرے کافی دوست ہیں۔ آپ جمالی ہو آپ خاندانی لوگ ہیں۔ آپ میرے پاس آیا کریں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے سر۔ دو ہفتے کے بعد میں ایک بار پھر ان سے ملنے گیا۔ پھر چائے پی۔ کہنے لگا کہ کوئی بھی ذاتی کام ہو تو حکم۔ بس آپ مجھے ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا کریں۔ برگیڈیئر صاحب کا خیال ہوگا کہ میں امت میں کام کرنے والا سندھی بولنے والا رپورٹر ہوں تو مجھے کیا اعتراض ہوگا۔ میں نے کہا کہ سر معذرت میں صحافی ہوں جو کام آپ بول رہے ہیں کوئی بھی پروفیشنل صحافی نہیں کرے گا۔
مسکرا کر کہنے لگا جمالی صاحب آج کل تو ہر دوسرا تیسرا بڑا صحافی یہ ہی کام کرتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ صحافیوں کی بڑی تعداد سیاسی پارٹیوں کے لئے کام کرتی ہے۔ کسی ملکی ادارے کے ساتھ کام کرنا ملک کے لئے نیکی اور اجر کا کام ہے۔ میں نے کہا برگیڈیئر صاحب مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے ذاتی طور پر آپ اچھے انسان ہیں۔ چائے پینے کے بعد میں اٹھ چلا۔ مذکورہ برگیڈیئر ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی اہم عہدوں پر رہے شاید چند سال قبل ان کا انتقال ہوگیا ہے۔
میں ایسے بہت سارے ٹی وی اینکرز۔ اور صحافیوں کو جانتا ہوں جو انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی قیمت وصول کر چکے ہیں۔ بنگلے گاڑیاں۔ پرتعیش زندگی۔ غیر ملکی دورے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ زیادہ حاصلات کے چکر میں اس ہی ایجنسی کو بائے پاس کرتے ہیں یا پھر ڈبل کراس کرتے ہیں۔ آج کل تو میڈیا سے وابستہ کئی لوگ سیاسی آلہ کر بن کر ان ہی ایجنسیوں کے خلاف بات کرتے ہیں جن ایجنسیوں نے انہیں زمین سے اٹھا کر ساتویں آسمان تک پہنچا دیا۔ جنہوں نے ہیرو بنایا اگر ان کو گالی دیں گے تو وہ ہی آپ کو صفر بنا دیں گے۔ بہادر صحافی وہ نہیں جو عیش و عشرت کے لئے آلہ کار بن جائے۔ بہادر صحافی وہ ہے جو صحافت کے پیشے کے ساتھ سچا رہتے ہوئے سب کے خلاف سچ بولے یا سچ لکھے۔ وہ الگ بات ہے کہ آج کل لوگوں نے خود سے صحافت کے اصول بدل ڈالے ہیں۔ بیشک کوئی صحافی صحافت چھوڑ کر سیاست دان بن جائے۔ بزنس مین بن جائے۔ سفارت کار بن جائے۔ کوئی اعتراض نہیں۔ خدارا صحافت کے نام پر کسی بندوق کا دستہ مت بنیں۔ کسی وڈیرے سردار کا چھاڑتہ مت بنیں۔ کسی سیاست دان کا مائوتھ پیس نہ بنیں۔ کسی کی لیب ٹاپ کا مائوس نہ بنیں۔ صحافت نہ ثنا خوانی ہے نا کہ جاسوسی ہے۔ صحافت کو صحافت رہنے دیں مال بنانے کے اور بہت سارے راستے ہیں۔(عاجز جمالی)