تحریر: سدرہ اشرف
شعبہ صحافت سے وابستہ رپورٹرز، اینکرز، کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو ایسی خواہشیں اپنے دل میں پالتا رہتا ہے۔ یہ طبقہ خبر کی کھوج میں ایسے سرگرداں دکھائی دیتا ہے کہ اپنی زندگیاں بھی داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔جنوبی پنجاب خصوصاً ملتان میں اگر یہ کہا جائے کہ صحافی، کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز بے سہاروں کی طرح ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافی اچھی اور بڑی خبر کے حصول میں گرمی، سردی، حالات کی سختی، خطرات سے بے پرواہ ہوکر دن رات ’’خبر‘‘ کی کھوج میں رہتے ہیں۔ بڑی خبر ہاتھ لگ جائے تو کچھ دن تسکین میں گزارے جاتے ہیں مگر پھر بھی نئی اور بڑی خبر کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔
میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہوجائیں تو ہر ادارے میں نوکری شروع ہوتے ہی آپ کو بریکنگ نیوز یا ایکسکلوزیو اسٹوری لانے کےلیے کہنا شروع کردیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر میڈیا ہاؤس کی جانب سے صحافیوں کی تربیت نہیں کی جاتی کہ آیا خبر کے حصول کےلیے انہوں نے کون سے اصول کارفرما رکھنے ہیں یا اپنی زندگی کی حفاظت کےلیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔ ایسی صورتحال میں صحافیوں کو ہر قسم کے حالات کا خود ہی مقابلہ کرکے خبر نکالنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا ملتان میں مقامی ٹی وی چینل کے رپورٹر جام بابر اور کیمرہ مین اکرم شاہین کو بھی کرنا پڑا، جب وہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی دوڑ میں دھواں دھار انداز میں آفس سے نکلے اور اسپتال پہنچ گئے۔
کیمرہ مین اکرم شاہین نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 2013 میں اچانک خبر کی اطلاع ملنے پر وہ فوری طور پر دفتر سے نکلے تو انہیں راستے میں پتہ چلا کہ انہوں نے اس بریکنگ نیوز کےلیے ملتان کے نواحی علاقہ مظفر گڑھ میں جانا ہے، جہاں گھریلو ناچاقی پر شوہر نے بیوی اور دو بچوں کو قتل کردیا ہے۔ انھوں نے گاڑی 120 کی اسپیڈ سے دوڑانا شروع کردی کہ کہیں دوسرا چینل بریکنگ نیوز چلا کر بازی نہ لے جائے۔ وہ سردیوں کی رات تھی اور غالباً 11 بج رہے تھے کہ پل چناب پر ان کی گاڑی اچانک اوور اسپیڈ کی وجہ سے دھماکے سے برج کے پلرز سے جا ٹکرائی۔ ہوش آنے پر خود کو اسپتال میں پایا۔ اس حادثے کے نتیجے میں ڈرائیور اور رپورٹر زخمی ہوگئے جو بعد ازاں صحت یاب ہوگئے تاہم کیمرہ مین اکرم شاہین کو دونوں ٹانگوں سے معدزوری کا سامنا کرنا پڑا۔
اکرم شاہین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کی جانب سے اسے عارضی طور پر سپورٹ کیا گیا، بعد ازاں جسمانی معذوری کے باعث نوکری سے برطرف کرکے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس حوالے سے ادارے کی انتظامیہ سے موقف لینے کےلیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کسی بھی قسم کا موقف دینے سے انکار کردیا۔ رپورٹر جام بابر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حادثہ اور کیمرہ مین کی انتہائی تشویشناک حالت دیکھ کر دل میں خوف پیدا ہوگیا تھا اور اس خوف سے نکلنے کےلیے کئی مہینے لگ گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا انڈسٹری میں تمام ملازمین خاص طور پر رپورٹرز، اینکر پرسنز، پروڈیوسرز، کیمرہ مین اور انجینئرز کو کسی بھی وقوعہ کی کوریج سے پہلے اپنے تحفظ کےلیے تربیت ضرور دی جانی چاہیے۔
ملتان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری انجم خان پتافی نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ صحافیوں کے جانی و مالی تحفط کےلیے تربیت کے فقدان کے باعث صحافیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہونے والے تشدد، ہراسمنٹ اور دیگر حادثات جیسے واقعات میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے، جن کی روک تھام کےلیے یوننیز بھی اپنا کردار ادا کرنے کےلیے لائحہ عمل تیار کررہی ہیں۔
صحافی ملک یوسف عابد سے جب صحافیوں کے تحفظ کےلیے تربیت کے فقدان کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا انڈسٹری میں ملازمین کو نوکری پر رکھنے سے قبل ہی ان کے جان و مال کے تحفظ کےلیے ریسکیو، پولیس، ٹریفک وارڈنز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح تربیت دی جائے تاکہ دوران ڈیوٹی صحافی اپنی زندگیوں کا تحفظ کرسکیں۔
سابق صدر ملتان پریس کلب شکیل انجم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریس کلبز بھی اب صحافیوں کے تحفظ کےلیے دیگر پرائیوٹ اداروں کے ساتھ مل کر تربیت کا انتظام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں فی الحال فنڈز کم ہیں لیکن پھر بھی چند صحافیوں کو جلد تربیت دی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا مالکان کی جانب سے تمام ایڈیٹرز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ہر خبر سب سے پہلے اور مستند نشر کریں، جس کے باعث رپورٹر کو کسی بھی واقعے کی کوریج کےلیے مزید آگے جانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے پر صحافیوں کی مدد کی کوئی پالیسی نہیں بتائی جاتی، لیکن ہر ادارہ اپنے رپورٹرز کو بریکنگ کی دوڑ میں سب سے آگے دیکھنا چاہتا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کےلیے کام کرنے والے ادارے پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 18 برس میں اب تک 73 صحافی اپنی جان کی بازی ہار گئے، جن میں سے 48 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 25 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران ابدی نیند سلادیا، جبکہ 188 صحافی زخمی ہوئے۔ 88 پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، 22 صحافیوں کو اغوا، جبکہ 42 صحافیوں کو حراست میں لے کر حبس بے جا میں رکھا گیا۔
پی ایف یو جے کے سابق فائنانس سیکریٹری مظہر خان نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا انڈسٹری میں خبر کی اہمیت اور ’’زندگی‘‘ کی بے توقیری پر افسوس ہے۔ صحافیوں کی زندگیوں کا تحفظ خبر سے پہلے ہونا چاہئے اور یہ اصول بنالیا جائے کہ ’’دنیا کی کوئی خبر صحافی کی زندگی سے بڑھ کر نہیں۔۔۔(بشکریہ ایکسپریس)