تحریر: محمد امنان
صفحہ نمبر 1
میں ایک ساڑھے تین مرلے کے گھر میں جوان ہوا ہوں جہاں آنکھ کھلتے ہی جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت ایک کمرہ ہمارے حصے کا تھا جہاں میں نے بچپن سے جوانی تک کے سارے خواب دیکھے اور ان میں سے چند کو اسی کمرے میں دفنا دیا کیونکہ 16 سالہ تعلیم جیسے تیسے حاصل کر کے میں صحافت میں آگیا یعنی غربت تو بچپن سے اپنی دوست تھی اس پہ حالات کو بھی حریف بنا کر زندگی کی بینڈ خوب بجائی تین چار سال صحافت اوڑھے رکھی پھر تبدیلی کی وبا نے صحافت کا پیرہن ادھیڑنا شروع کر دیا تو میں دل اور دماغ بھی بکھرنے لگے۔۔اسی ایک کمرے کے گھر کے سامنے ایک ڈیوڑی(دالان کہہ لیجئیے) ہے جہاں چولہا جلا کر میں زندگی کے ستائیس برس گزارنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ میں صحافی ہی کیوں بنا یا میرے پیدا ہونے کا مقصد مجھے کیوں نہیں مل پا رہا ؟؟ میں پڑھ لکھ تو گیا ،لیکن کچھ دنوں سے میرے پیچھے ایک ڈر آسیب کی طرح دوڑتا ہے شاید بے روزگاری کا آسیب ہے جو مجھے ڈرا رہا ہے ، میرے اپنے خواب تو شاید ہیں یا نہیں صحافت کے تین چار سالوں نے خواب سجانے کا موقع ہی نہیں دیا اس پہ سوچ کا بھی قصور ہے کیونکہ میں ذہنی اور معاشی طور پہ غریب جو ٹھہرا۔۔ آسیب، جی ہاں، آسیب وہ یہ تھا کہ اماں کا خواب ہے نیا گھر بنانے کا جہاں وہ میری شادی دیکھنا چاہتی ہیں اب بیروزگاری کے دنوں میں ہر جگہ چھپ چھپا کے نکلتا ہوں کچھ تو ادھار اٹھائے لوگوں کا سامنا مشکل ہے۔۔ کچھ اماں کے معصوم سے سوال اور مشورے ہیں سوال یہ کہ نوکری کا کیا بنا؟؟ روز شام گئے کہاں چلے جاتے ہو رات کو کب آتے ہو گھر؟؟
اماں کہتی ہیں باہر چلا جا وہاں کام کاج ڈھونڈ لے میرے پاس کچھ پیسے ہیں عمرہ کرنے کا سوچا تھا تم ان پیسوں سے باہر چلے جاو دوسرے ملک میں کافی آسان ہے روزگار۔۔۔اور میں ان سوالوں اور مشوروں پہ فقط ہوں ہاں ہی کرتا ہوں۔۔۔پھر سوچتا ہوں نئے دن پہ شاید رحیم و رازق مالک دو جہاں کو ترس آجائے اور رزق کا وسیلہ بن جائے مگر روز ہی یہ آس اگلے دن پہ چلی جاتی ہے۔۔۔نئی حکومت ہے ابھی خیر سے ڈیڑھ سال کے قریب ہی تو ہوا ہے بیچاروں کو ملک سنبھالے ۔۔۔ تبدیلی والی اس حکومت سے سخت نفرت ہے مجھے کیونکہ مجھ جیسے کئی بیروزگار ( جنہیں تنخواہیں نہیں ملی) وہ دل کے دورے پڑنے سے ان تمام فکروں سے آزاد ہو گئے ہیں میں جو ہوں اپنے شہر آئے یونیورسٹی کے دوستوں سے مل نہیں پاتا کیسے ملوں؟؟
مہمان نوازی کے اصول کچھ اور کہتے ہیں تو میں ڈرپوک سا ہو گیا ہوں اور بھاگنے لگا ہوں ہر چیز سے رشتوں سے خود سے لیکن کسے پڑی ہے کہ کیسے گذر رہی ہے ، فیاض اور رضوان دونوں کیمرہ مین تھے دل کا دورہ پڑا مر گئے ، وجہ یہ تھی کہ تنخواہیں مل نہیں رہیں تھیں۔۔۔ ذمہ داریوں کا بوجھ اور ذہنی دباو نے مل ملا کے زندگی سے آزاد کر دیا ابھی 8 سال پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا دور حکومت تھا وہ لوگ چور تھے کرپٹ تھے اور تب میں طالب علم تھا ڈگری کیسے حاصل کر لی ؟ یہ میری والدہ کو پتہ ہے جس نے اپنی خواہشات دبا کر میری فیسیں بھریں یا میرے والد کو پتہ ہے جو دو جوڑوں میں گرمی یا سردی کا سیزن گذار کر میرا جیب خرچ کم نہیں ہونے دیتا تھا اب مجھ پہ بوجھ یہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں انہیں آرام دوں پر کیسے؟؟؟
میں تو بے روزگار ہوں میری ذمہ داریاں اور فرائض وغیرہ تو میری تنخواہ سے مشروط ہیں لیکن میرے پاس تو نوکری ہی نہیں میڈیا مالکان بیچارے کنگلے ہو گئے ہیں پیسہ ہی نہیں ہے تو میری پچیس تیس ہزار ماہانہ تنخواہ کیسے دیں گے۔۔ ریاست؟ اس کا کیا قصور ہے مجھے ریاست نے تو نہیں کہا تھا کہ صحافی بن جاو اب شوق تھا تو بھگتو ہمیں تو پچھلی حکومتوں کے بنائے گھن چکر نے گھما رکھا ہے تم لوگ مر رہے ہو تو مرو ہماری بلا سے باقی سب ٹھیک ہے ملک میں ترقی کا دور دورہ ہے لیکن میں سوشل میڈیا پہ روز حکومت پہ کسی نہ کسی بہانے تنقید کرتا ہوں اور اپنا بوجھ اتار کے سوتا ہوں شاید ایک دن نہ جاگ سکوں اپنے دیگر بھائیوں یعنی فیاض اور رضوان کی طرح آزاد ہو جاوں یا شاید ابھی اور سہنا ہو گا۔۔
صفحہ نمبر 2
صحافی کیا ہیں؟؟ ہر وقت کی تنقید اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں کام کاج ہے کوئی نہیں جب دیکھو بلیک میل کرتے ہی۔۔۔ں سب سے بڑے کرپٹ ہیں صحافی۔۔۔عمران خان نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ ملک کے باقی مسائل سے بھی نمٹے اور ان اچھوت صحافیوں کے مسائل بھی سوچے بھئی وزیر اعظم کا تو خود دو لاکھ روپے تنخواہ میں گذارہ مشکل ہے یہ سب تنقید کرنے والے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ورکر ہیں سب ملک کے دشمن ہیں بس ہم تحریک انصاف والے سچے ہیں۔۔۔صحافیوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں تو کوئی اور کام کر لیں نا کروڑوں نوکریاں خان صیب نے نکال رکھی ہیں اور ان اچھوت مزدور صحافیوں نے سوشل میڈیا پہ طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔۔۔صحافی جھوٹے مکار اور خان کے پکے دشمن ہیں خود وزیر اعظم نے بھی تو کہا تھا کہ میڈیا کے پروگرامز مت دیکھو اخبارات مت پڑھو سب ٹھیک ہے ایویں اودھم مچا رکھا ہے ان سب نے۔۔۔
صحافی ہو؟؟؟؟ کتنی دیہاڑی لگا لیتے ہو ؟؟
نہیں نہیں مجھے ادارہ تنخواہ دیتا ہے(جو مزدور سے بھی کم ہوتی ہے)
پھر بھی؟؟ اوپر کی کمائی سے کتنا کما لیتے ہو ( خوب بلیک میلر ہوتے ہو یار تم لوگ)
ایسا لوگ کہتے ہیں مجھ جیسوں کو اور یہ بھی کہ میڈیا کو اس حکومت میں اشتہاروں کی مد میں لفافے نہیں مل رہے اسلئیے یہ حکومت پہ تنقید کرتے ہیں۔۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا پیج اور عمران خان کے نام سے بنا آفیشل پیج ہم ورکر صحافیوں کے خلاف اکثر پراپیگنڈہ کرتا رہتا ہے(یاد آیا میں کیسے ثابت کروں گا کہ میں صحافی ہوں میرے پاس تو جاب ہی نہیں ہے)۔۔۔ہاں ہاں تم لوگ اسے موقع دے کر دیکھو نا صبر کرو ایسا مشورہ وہ لوگ دیتے ہیں جن کے باپوں کی ڈھیر ساری جائیدادیں ہوتی ہیں اور وہ اپنے لگژری گھروں میں سہولیات سے آراستہ کمروں میں بیٹھ کر ہم صحافیوں پہ آوازیں کس رہے ہوتے ہیں،،،،بھئی یہ دھوپ سردی گرمی حالات کا رونا ، ذہنی دباو، سچ کی لگن فلانا ڈھمکانا کا ٹھیکہ صحافیوں نے ہی لے رکھا ہے؟؟ کیوں بھئی ہر وقت منفی کیوں سوچتے ہو؟؟
اگر اتنے ہی غریب ہو تو یہ اینڈرائیڈ موبائل اور انٹرنیٹ پیکج کہاں سے کروایا پکا رشوت لیتے ہو گے بلیک میلر جو ٹھہرے تم( لیکن انہیں کیا پتہ بے روزگاری میں انسان کتنا ادھار اٹھا لیتا ہے جو شاید اتر بھی نہیں پاتا اور بندہ قبر میں اتر جاتا ہے )
بہت عجیب سوالات ہوتے ہیں ہم سے اور عام آدمی سے لے کر ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا افسر ملازم یا وزیر ہمیں حقارت سے دیکھتا ہے جیسے ہندو سماج میں اونچی ذات والے شودروں کو دیکھتے ہیں ، کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم پاکستانی ہیں یا اچھوت؟؟ قلم اٹھانا یا سوچنا اور سوال کرنا ایسا کبیرہ گناہ ہے؟؟اب اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارے صحافی لیڈران اور موٹی تنخواہیں لینے والے اینکرز تو چپ ہیں مالکان کے ساتھ پکی دوستی ہے کچھ کی حکومتی وزرا اور اصل حکومت والوں سے دوستی ہے انکی نوکری کون چھیڑے گا بھلا؟؟؟
آ جا کے غریب میڈیا مالکان اپنی بچت کے چکر میں پچیس تیس لاکھ تنخواہ والے بڑے اینکرز یا دو ڈیڑھ لاکھ لینے والے بڑے رپورٹروں کی بجائے نکالتے ہیں تو پچیس تیس ہزار اٹھارہ ہزار بیس ہزار ماہانہ لینے والے،،،،آفس بوائے، سکیورٹی گارڈ ، این ایل ای ، کیمرہ مین، ٹکر آپریٹر ، اسائینمنٹ ایڈیٹر ، رپورٹر یعنی درجہ چہارم والے جتنے ملازمین جو بے بس ہوتے ہیں۔۔لیکن اس سب کو میں کسی عدالت میں کیسے ثابت کروں صحافت کی ڈگری ہونے کا مطلب یہ تو نہیں اس ملک میں کہ تم صحافی ہو ، کیا حق ہے تمہیں بلا وجہ دکھ درد سنانے کا نوحے پڑھنے کا یا ورکر صحافیوں کے کرب کو لکھنے کا،،
کیسے ثابت کرو گے کہ نوکری عمران خان نے کھا لی؟؟ کہاں سے لاو گے ثبوت ؟؟ کون سنے گا تمہاری؟؟
اصل میں تمہاری اوقات ہی یہ کہ تم صحافی ہو اور یہ ہی تمہاری سزا ہے
اب بھگتو
بقیہ صفحے بھی بھرے ہوئے ہیں لیکن خالی ہیں کیونکہ پڑھنا اور دیکھنا کوئی نہیں چاہتا
ایک کمرے کا گھر اور پھر موت کی آخری ہچکی
صحافی کا کل اثاثہ۔۔۔
اور یہ کہ فیصل آباد سے میرے سمیت تمام صحافیوں سے ریزائن لے لئے گئے ہیں میں کس سے انصاف مانگوں؟؟؟؟؟؟(محمد امنان)۔۔