تحریر: وارث رضا۔۔
سوچتا ہوں کہ کس کس پر ماتم کیا جائے،ایک جانب صحافت دم توڑ رہی ہے یا موت کی آغوش میں ہے تو دوسری جانب عوام کو مسلسل سیاسی، سماجی اور معاشی آئینی حقوق سے محروم رکھا جارہاہے،اس پر سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جب صرف ووٹ کے گورکھ دھندوں کے طفیل منتخب ہوکر آجاتی ہیں تو پھر جمہوریت کے نام پر صرف وہ کچھ ہی کررہی ہوتی ہیں،جو انھیں نہیں کرنا چاہیے۔
منتخب ہونے والے برطانوی نواز وڈیرے،جاگیردار،سردار،سرمایہ دار ،سیاسی اراکین ملک کی ’’الیٹ‘‘ کلاس کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک پیج پر ہوتے ہیں،اس پورے سیاسی اور جمہوری عمل میں یہ سیاسی جماعتیں عوام کے آئینی اور سیاسی حقوق پر اس طرح خاموش ہوتی ہیں جیسے قبرستان کا سناٹا۔
رات کے پہر مجھے مرکزی سطح پر قائم صحافتی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین (پی ایف یو جے) کے موجودہ اسسٹنٹ سیکریٹری سردار لیاقت کا فون آیا کہ آپ نے ’’صحافتی حقوق‘‘ کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم OHCHR. کی کرسٹائن چنگ کراچی میں تشریف لائی ہیں اور PFUJ و انسانی حقوق کے پارلیمانی کمیشن PCHR کے شفیق چوہدری کی کوششوں سے سندھ کے صحافی حقوق پر ورکشاپ کرنا چاہتی ہیں،لہٰذا آپ کی شرکت ضروری ہے،بلکہ بیٹی لیلیٰ رضا کی شرکت کو بھی یقینی بنائیں۔
سردار لیاقت کے حکم اور محبت میں بیٹی سمیت دو روزہ ’’انٹرنیشنل ہیومن رائٹس اور اس کے صحافتی استعمال و طریقہ کار‘‘ پر ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا جس میں پی ایف یو جے کے متحرک سیکریٹری جنرل ارشد انصاری اور صحافی دوست مبارک زیب کی کوششیں اور ایڈہاک کمیٹی کے امتیاز فاران و ہارون خالد کی کوششیں بھی شامل حال رہیں اور یوں یہ کراچی کے معروف صحافیوں مظہر عباس،ہارون خالد،ایوب جان سرہندی، جاوید چوہدری،امتیاز فاران،خورشید عباسی،آغا خالد، حسن عباس،رفیق شیخ،اکرم خان، طاہر حسن خان،ثنا ہاشمی،روبینہ علوی،یوسفی صاحب سمیت نوجوان صحافی ماجد خان اور لیلیٰ رضا کی موجودگی اور دلچسپی سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچا۔
صحافیوں کے تحفظ اور اقوام متحدہ کی جانب سے اقدامات پر معروف صحافی مظہر عباس نے’’صحفیوں کے جرائم میں ملوث افراد‘‘ پر روشنی ڈالی جب کہ نوجوان صحافی لیلیٰ رضا اور ثنا ہاشمی نے خواتین صحافیوں سے نا انصافیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا،اس موقع پر اقوام متحدہ کی پاکستان کے صحافتی انسانی حقوق کی خلاف گمبٹ کے صحافی عجیب علی کھوسو کے ساتھ سندھ پولیس اور صحافت کی مرکزی تنظیم کے اس سکھر عہدیدار کی پولیس کو سہولت کاری کرنے کی نظر کو تشویش سے دیکھا کہ جس میں عجیب کھوسو کے سندھ سے تیل کی ناجائز اسمگلنگ کی روک تھام کے کاروبار کرنے اور اس میں ملوث پولیس افسران کے جرائم کو رپورٹ کیا، جس میں اقوام متحدہ کی ٹیم نے صحافتی تنظیم سکھر کے نمایندے اور عہدیدار کی پولیس کے مجرمانہ مدد کے عمل کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا اور تنظیم کو اس قسم کے افراد سے پاک کرنے کی تجویز دی گئی، پھر جب میرے گاؤں دادو کے بے باک و نڈر رپورٹر امداد سومرو کے توسط سے عجیب کھوسو سے رابطہ کیا گیا تو گمبٹ کے صحافی عجیب کھوسو نے سکھر ڈویژن کے پولیس افسران کے اس مجرمانہ عمل کی تصدیق کی،جس ملک میں صحافی اور بے باک صحافت محفوظ نہ ہو تو اس صورتحال میں صحافیوں کی جانکاری کے لیے مذکورہ ورکشاپ اندھیرے میں روشنی میسر کرنے کا حوالہ بنا جس پر پی ایف یو جے اور پارلیمانی کمیشن کی جملہ کوششیں ایک ایسا حوصلہ من قدم بنیں،جن سے وہاں موجود شرکا کے اعتماد اور اعتبار کو نئی توانائی ملی۔ جہاں زندہ رہ جانے والے بے باک صحافی ہوں وہاں بھلا ان صحافی اکابرین کا ذکر کیوں نہ ہو جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ملک کے عوام کی جمہوری آزادی کے لیے اپنی زندگی تج کردی ہو۔
اجمل دہلوی اورایک روز نامہ جنرل ضیا کے سیاہ اور جمہوریت دشمن دور میں عوام کی امید تھا کہ جس نے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود اجمل دہلوی کی قیادت میں عوام کے اندر امید کی جوت جگائی،کسے معلوم تھا کہ بے باک اورنڈر صحافی اجمل دہلوی بھی صحافیوں کا ساتھ چھوڑ جائے گا،مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے اجمل دہلوی اور طاہر نجمی کی ادارت میں کام بھی کیا اور ان دونوں نے ہی میرے لکھنے کے جذبے کو آج تک طاقت دی، ایسے میں پھر بھلا طاہر نجمی کا ساتھی اور معروف صحافی ناصر بیگ چغتائی اجمل دہلوی کی ناگہانی موت پر یہ نہ کہے تو کیا کہے کہ ’’یہ اخبار بھی خوب تھا صحافیوں کی کل پاکستان(مشرقی پاکستان سمیت) ہڑتال ہوئی اس کا نتیجہ جو بھی ہوا کچھ لوگوں نے ہڑتال توڑی،جب ہڑتال ختم ہوئی تو کچھ مالکان نے کچھ کارکنوں کو واپس لینے سے انکار کردیا ان میں اجمل دہلوی بھی تھے ان لوگوں نے مل کر اس روزنامہ کا اجرا کیا۔‘‘
یہ میری اجمل دہلوی سے پہلی ملاقات تھی۔ صاف ستھرے گورے چٹے میز پر بہت سے کاغذ لیکن بے ترتیبی کوئی نہیں مشترکہ میز پر ایک کونے میں بیٹھے ہوئے مجھے بہت سمجھایا کہ آئیڈیل ازم اس وقت تک اچھا ہوتا ہے جب تک کاز کو متاثر نہ کرے پھر بتایا کہ اس اخبار میں سب کی تنخواہ یکساں ہے یہ بے روزگار صحافیوں کا کیمپ ہے۔نوآموزوں کے لیے تربیتی مرکز ہے پھر جس کو جہاں اچھا موقع ملے جاسکتا ہے۔
مجھے انھوں نے نسخہ بتایا’’ آپ نے اتنی سی عمر میں بڑی رپورٹنگ کی بھٹو صاحب تک سے کئی ملاقاتیں کیں،لیکن آپ کا ترجمہ سنا ہے کہ زبردست ہے تیز ہے ڈیسک پر بھی کام کرتے ہیںتو رپورٹنگ کوئی بھی کرلے گا آپ کا مستقبل نیوز ڈیسک پر ہے ۔‘‘
یہ بہت زبردست نسخہ تھا۔ وہیں طاہر نجمی سے ملاقات ہوئی اور زبردست دوستی ہوگئی۔ طاہر اجمل صاحب کا بہت لاڈلا اور بے حد محنتی تھا،کچھ دنوں بعد اجمل صاحب نے مجھ سے کہا کہ خبروں پر سرخیاں بھی لگایا کروں،میں نے بہت غور کیا کہ وہ میری ہر سرخی کاٹ کر دوسری سرخی لکھ دیتے تھے یہ عجیب لگا کہ بھئی پھر مجھ سے اتنی مشقت کیوں؟
صولوں پر ڈٹ جانے والے اجمل دہلوی صاحب چلے گئے۔یہ ایسے کارکن صحافی تھے جس نے ایک اخبار کے سامنے ایک اخبار کھڑا کیا تھا اور اسے ’’ بے روزگاروں کا روزگار کیمپ ‘‘ قرار دیا تھا۔اجمل دہلوی عرف جمعہ خان کی غاصبانہ قبضے کے خلاف تحاریر لکھنے والے پیدا کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور پی ایف یو جے کے صحافتی تحفظ اور اظہار رائے کو مضبوط کرنے کی یہ کوششیں ضرور کار آمد ہوں گی اور صحافت کی نئی کھیپ اجمل دہلوی اور صحافت کی آزادی اور تقدس کے لیے ضرور سینہ سپر ہوں گے۔۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔