sahafi ki khudkushi ya qatal

صحافی کی خودکشی یا قتل؟

تحریر: فدا عدیل۔۔

کہتے ہیں کراچی معاشی حب ہے اور سارا ملک اسی ایک روشنیوں والے شہر کے دم سے چلتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس شہر کا کوئی باسی دم گھٹنے سے کیسے مرسکتا ہے؟ اگر کوئی صحافی اتنے بڑے شہر میں چھت سے لٹک کر خود اپنا قاتل بن سکتا ہے تو باقی شہروں میں مایوسی کی شدت کیا ہوگی؟ کراچی تو وہ شہر ہے جہاں ٹی وی چینلز کے بڑے بڑے شوز ہوتے ہیں، جہاں کے شرکاء میں کروڑوں کے انعامات کوڑیوں کے مول بانٹے جاتے ہیں، یہاں سے تو زیادہ تر مارننگ شوز ہورہے ہیں، جن میں صبح صبح خوشحالی کی نہ صرف نوید سنائی جاتی ہے بلکہ اینکرز اور مہمانوں کا لباس چیخ چیخ کر بتاتا ہے کہ پاکستان ایک خوشحال ملک ہے۔ اسی شہر کراچی سے پکوانوں کے پروگرام تیار کئے جاتے ہیں جن میں طرح طرح کی تراکیب بتائی جاتی ہیں، ان ذائقہ دار پروگراموں میں جس طرح کے کچن اور جس طرح کا الیکٹرانکس کا سامان دکھایا جاتا ہے تو کیا آپ کو یقین آئے گا کہ اسی شہر کا کوئی گھر فاقوں کی زد پر ہوسکتا ہے؟ کراچی میں غربت اور بےروزگاری سے تنگ صحافی فہیم مغل کی خودکشی کی خبر محض کوئی خبر نہیں جس پر کچھ دن افسوس کرلیا جائے، میڈیا مالکان کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جائے اور بات ختم۔ یہ خبر حکومت اور میڈیا مالکان کے ساتھ ساتھ پورے نظام بلکہ پورے معاشرے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔

فہیم مغل کو دو ماہ قبل مقامی اخبار میں ڈاؤن سائزنگ کے باعث فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد اس نے کرائے کا رکشہ لے کر چلانا شروع کیا، مگر وہ اس رکشے کے ذریعے بھی زندگی کا بوجھ آگے لیکر چلا نہیں پایا۔ تنگ آکر چھت سے جھول گیا۔ کرائے کے گھر میں مقیم صحافی فہیم مغل کے 6 بچے ہیں، فہیم مغل 60/70 ہزار قرض کی وجہ سے بھی پریشان تھا. ‏فہیم مغل نے سوگواران میں بیوہ، پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق وہ اپنے “قتل” کی شام دوا لے کر آیا، جب بیوی نے بچوں کے لئے دودھ کا تقاضا کیا تو اس وقت وہ کمرے میں بیٹھا تھا، تھوڑی دیر بعد دروازہ بند کرلیا، آدھا گھنٹہ بعد دروازہ کھولا گیا تو وہ چھت سے جھول رہا تھا۔ خودکشی کی صورت میں یہ قتل کراچی میں ہوا، اس کراچی میں جس کو غریب پرور کہا جاتا ہے، جو بے روزگاروں کو روزگار دیتا رہا ہے، ملک بھر سے کتنے ہی لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی چلے جاتے ہیں اور نہ صرف روزگار حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اس شہر کی روشنیوں میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ کبھی کبھار عید کے موقع پر ہی واپس گاؤں میں نظر آتے ہیں۔ اس کراچی میں تو ایسے ایسے کردار بھی سامنے آئے ہیں، میڈیا جن کو ہمارے لئے رول ماڈل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے، کہاں گئے وہ کردار؟ کہاں مر کھپ گئے وہ این جی اوز والے؟ کہاں گئے وہ فکس کرکے مونچھوں کو تاو دینے والے؟ جو فٹ پاتھوں پر دسترخوان سجا کر ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے نہیں تھکتے، جو دوسروں کو بھی نیک کام کی ہدایت دیتے نظر آتے ہیں؟ کراچی کی تو مساجد میں بھی غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی صورت میں حقوق العباد ادا کئے جاتے ہیں۔ یہاں تو چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بھی چندے اور عطیات کے شفاف ڈبے نوٹوں سے بھرے نظر آتے ہیں، ہر ٹریفک سگنل پر بھی خیراتی ادارے مخیر حضرات کی سہولت کے لئے موجود دکھائی دیتے ہیں، فنڈ ریزنگ میں ہمیشہ پہلا نمبر کراچی نے ہی لیا ہے۔ ایک ایسے زبردست شہر میں چھ بچوں کا باپ چھت سے جھول گیا؟ یہ ماننے والی بات ہے؟ اتنے بڑے شہر میں کوئی ایک “ایدھی” بھی نہیں تھا جو اس کے بچوں کے لئے دودھ کا بندوبست کردیتا، کوئی انصار برنی اس کے لئے کرائے کے رکشے کے بجائے اپنے رکشے کا بندوبست کرکے دے دیتا، کوئی ملک ریاض حسین اس کا قرضہ اتار دیتا، کوئی عالمگیر خان اس کی کسی میڈیا مالک کے ساتھ ملاقات فکس کروا دیتا، کوئی سیلانی اس کے گھر راشن پہنچا آتا، کسی حکومتی لنگرخانے سے اس کے بچوں کو روٹی مل جاتی، کسی پناہ گاہ میں اس کو بھوک سے پناہ مل جاتی، کوئی احساس والا اس سے ٹکرا جاتا۔ اگر کوئی بھی موجود نہیں تھا تو یقیناً فہیم مغل کوئی “ذہنی مریض” تھا. جی ہاں ایسے مجبوروں کو ذہنی مریض ہی کہہ کر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ میڈیا سے وابستہ کوئی شخص بے روزگار ہو جائے تو اس کو کوئی دوسرا کام نہیں آتا، کئی دہائیوں سے ایک ہی طرح کا کام کر کرکے وہ کسی دوسرے کام کا نہیں رہتا، ایسا ہوتا تو فہیم مغل آج ایک “کامیاب رکشہ ڈرائیور” ہوتا. میڈیا مالکان کا کیا ہے، وہ تو کروڑوں میں کھیلتے ہیں، درجنوں دیگر فیکٹریوں کے بھی مالک ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر میڈیا مالکان کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے اثاثے کتنے ہیں۔ ایسے میڈیا مالکان کو کیا معلوم کہ جب وہ ڈاون سائزنگ کے نام پر کارکنوں کا معاشی قتل کرتے ہیں تو یہ بے روزگار جاتے کہاں ہیں؟ یہ پہلی دفعہ دیکھا جارہا ہے کہ میڈیا مالکان ڈاون سائزنگ کے معاملے پر ایک پیج پر نظر آئے، یعنی ایک میڈیا ورکر ایک ادارے سے فارغ ہوا تو سیدھا گھر بیٹھ گیا کیونکہ سب سیٹھوں نے ایکا جو کیا ہوا ہے۔ ایک سیٹھ پہلے چند کارکنوں کو بوجھ قرار دے کر چلتا کرتا تھا، اب تو صرف چند سطری ایک ای میل کے ذریعے پورے کا پورا چلتا ہوا ادارہ بند ہزاروں کارکنوں کے معاشی قتل کا رواج ہے۔ اس ملک میں کتنے ہی فہیم مغل ہیں جو خود کشی سے قبل روز مر رہے ہیں۔ فہیم مغل بھی خودکشی سے پہلے نہ جانے کتنی مرتبہ مرا ہوگا؟ ایسے روز مرنے والے ہر شہر میں ہیں، بڑے شہروں کے صحافی چھوٹی سوچ کا بھی شکار ہیں، پریس کلبز اور صحافیوں کی تنظیمیں بھی اب بے روزگار صحافیوں کو ٹینگا دکھا رہی ہیں، بے روزگار صحافیوں کو کوئی دوسرا کام شروع کرنے کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔ میڈیا مالکان کے ٹاوٹ کا کردار ادا کرنے والے صحافی رہنما بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، حکمرانوں کے ساتھ کھانا کھانے کا شوقین صحافیوں کا استحصالی طبقہ جانتا ہی نہیں کہ گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس، بجلی اور گیس کا بل دینے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، لاکھوں میں تنخواہ لینے والے صحافی بھی نہیں جانتے کہ ان کے ہم قبیلہ کس مشکل سے دوچار ہیں۔ میڈیا مالکان کے اثاثے بڑھ رہے ہیں، فی سینٹی میٹر ان کا ریٹ بھی بڑھ رہا ہے، اخباروں میں ان کے اشتہاروں کے “رقبے” میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میڈیا مالکان کو اب ہر شعبے کے الگ الگ ماہرین نہیں بلکہ ہر فن مولا قسم کے جادوگر چاہئیں۔ جو تنخواہ بھی کم لیں اور آٹھ دس قسم کی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔ یہ میڈیا مالکان ہر قسم کے حکومتی قوانین اور قواعد و ضوابط سے بھی مبرا ہیں۔ یہ کارکنوں کو کتنی اور کب تنخواہ ادا کرتے ہیں؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ فہیم مغل نے چھت سے لٹک کر کم از کم اتنا ضرور کیا ہے کہ کچھ دنوں تک لوگوں کو میڈیا ورکرز کی بدحالی پر بات کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ کالم بھی پڑھ لیجئے اور بھول جائیے۔(بشکریہ میدان)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں