sahafi ka intezaar

صحافی کا انتظار۔۔

تحریر : محمد امنان۔۔

تم جو اب آگئے صحافت میں

اپنے مرنے کا انتظار کرو

شعبہ صحافت اور ملک کے عام عوام کے حالات دن بہ دن بد سے بس ترین ہوتے جا رہے ہیں کوئی ہنگامی اجلاس کسی اسمبلی میں منعقدنہیں ہوتا ان مرنے والوں کو کوئی شہید نہیں کہتا کیونکہ یہ لوگ اس معاشرے کا شاید حصہ نہیں ہے۔۔آج فصیح الرحمن، فیاض علی، رضوان ملک، سید محمد عمر ، ناصر بٹ، عزیز میمن ہم میں نہیں رہے  کوئی دل پکڑ کر چلا گیا کسی ہو تار سے گلا گھونٹ کر مار دیا گیا حالانکہ دیکھا جائے تو ان سب کو مارا گیا ہے ہمارے ملک کے نظام نے مار ڈالا، مالکان کے مفادات نے، نئی حکومت کی میڈیا کش پالیسیوں نے مار ڈالا، غربت و افلاس نے مار ڈالا، اور سب سے بڑھ کر انہیں انتظار نے مار ڈالا۔۔ہائے کیا سماں ہو گا ان گھروں میں جہاں کے یہ مکین تھے بچے کے اسکول کی فیسیں رہ گئیں ، کئی مہینوں سے گھر میں نہ آنے والا راشن رہ گیا، ماں باپ کے خواب ادھورے رہ گئے، سہاگ اجڑ گئے، بچے یتیم ہو گئے رضوان کے ہاں تو سنا ہے خدا کی رحمت اور نعمت کی شکل میں ننھا مہمان آنے والا تھا خیر کسی کو کیا پڑی ہے۔۔اس سب میں قصور کس کا ہے؟؟ ہم صحافی خود بھی قصور وار ہیں اور نام نہاد لیڈران جنہیں ہم طرم خان سمجھتے ہیں جو اصل میں مالکان کے پٹھو ہیں وہ قصور وار ہیں ، ریاست قصور وار ہے، خبریت کے سلسلے سے خار کھانے والے قصور وار ہیں اور یہ لاشیں مٹی کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے کے سینے میں دفن ہیں۔۔اسی بوجھ کے ساتھ یا تو کل میں مر جاوں گا یا مجھ جیسا کوئی اور کیونکہ صحافی اچھوت ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں ہماری صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو صحافت کا چہرہ بگاڑنے میں پیش پیش ہیں مگر جو بے روزگاری اور تنخواہیں نہ ملنے کے باعث مر گئے کیا وہ بھی بلیک میلرز تھے؟؟؟ لوگ ہمیں بلیک میلرز لفافہ اور ناجانے کیا کچھ کہتے ہیں۔۔

عقل کے بونے وزرا میڈیا پہ آوازیں کستے ہیں حشر برا کرنے کی درپردہ دھمکیاں دیتے ہیں اور تو اور جہاں پناہ جناب عمران خان فرماتے ہیں یہ رپورٹر غریب بندے کے آگے مائیک کر کے پوچھتے ہیں کہ ہاں جی کدھر ہے نیا پاکستان اور وہ پھر حکومت اور خان کو برا بھلا کہتا ہے۔۔حالانکہ وزیراعظم بننے سے پہلے اسی میڈیا اور میڈیا ورکرز کی تعریفیں کرتے خان صاحب تھکتے نہیں تھےموصوف کئی پرانی ویڈیو میں کہتے پائے گئے ہیں کہ میری تو پارٹی ہی میڈیا کی وجہ سے بنی ہے مجھے تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔۔حکومت پہ تنقید ہر جمہوری ملک میں ہوتی ہے لیکن اس بات کا فیصلہ ابھی تک ہونہیں  پایا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے یا جمہوریت کے نام پر کچھ اور۔۔ البتہ انتظار ضرور ہے جو صحافیوں کے حصے میں ہے۔۔

دن اچھے آجانے کا انتظار ، ملکی معیشت اور چینلز کے حالات ٹھیک ہو جانے کا انتظار ، تنخواہ کے آجانے کا انتظار ، چینل کی بھوک مٹانے کو خبر کا انتظار ، ایک دن صرف ایک دن سکون سے گذارنے کا انتظار اور صرف انتظار۔۔اسی انتظار کے چکر میں اب تک 7 کے قریب صحافی واپس لوٹ گئے اس جہان سے مگر کوئی نہیں  اٹھا کسی نے افسوس اور نوحہ نہیں پڑھا کیونکہ ملک میں نفسا نفسی کا عالم ہے جو میڈیا میں نوکریاں کر رہے ہیں انہیں نوکری سے نکالے جانے کا خوفناک انتظار ہے۔۔اور جو میڈیا سے نکالے جا چکے ہیں انہیں نئی نوکری ملنے کا انتظار ہے اور جو لکھ اور بول رہے ہیں انہیں ناجانے خوف کا انتظار ہے کہ کب اس حکومت کے رہتے قلم والوں پہ قیامت ٹوٹ پڑے کچھ خبر نہیں۔۔لوگوں کو خبر پہنچانے والوں کی لوگوں کو خبر نہیں تینوں ستون ستو پی کر مست ہیں کیونکہ نہ تو انکی تنخواہیں رکتی ہیں نا انہیں نوکریوں سے نکالا جاتا ہے وہ کرپشن کرتے ہیں عام آدمی کا لہو چوستے ہیں اور نشے میں جھومتے ہیں۔۔مسائل ہیں تو ورکر صحافی کے لئے بڑے صحافی تو لاکھوں میں تنخواہیں وصول کر رہے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو عمران خان کو اسکی باتوں سے مکر جانے پہ طنز کرتے ہیں اور اسکے وعدے دعوے یاد دلاتے ہیں مگر حکومت کا تو اپنا  سوشل میڈیا ونگ میڈیا کے خلاف چل رہا ہے روزانہ وہ میڈیا والوں کو جھوٹا ثابت کر کے سوتے ہیں انہیں تنخواہیں حکومت سے کس چکر میں مل رہی ہیں کوئی نئیں جانتا میڈیا کے خلاف پراپیگنڈا کے پیچھے پی ٹی آئی کی کیا پالیسی ہےنہیں سمجھ آتی۔۔

مجھے جو سمجھ آرہا ہے وہ صرف یہ کہ میرے لوگ مر رہے ہیں ہارٹ اٹیک سے اس معاملے پہ کوئی کمیشن  نہیں  بنتا کوئی عدالتی کارروائی عمل میں نہیں  لائی جاتی کوئی ادارہ حرکت میں  نہیں آتا کیونکہ صحافیوں کا مر جانا سب کے مفاد میں ہے کوئی بولنے والا نہیں بچے گا تو اس لولے لنگڑے معاشرے میں حقائق سامنے آئیں گے نہیں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔۔میں بھی انتظار کر رہا ہوں اپنی موت کا مجھ جیسے اور ایسا سوچتے ہیں شاید داعی اجل کا اگلا بلاوا ان کے لئے ہو بس انتظار ہے اور انتظار کا بوجھ جانیں نگل رہا ہے۔۔تب تک انتظار فرمائیں کیونکہ صحافیوں کی صفوں میں اتحاد ناممکن سا لگتا ہے یہ کسی تحریک کو چلانے کی سکت نئیں رکھتے شایداور موت کا  فرشتہ اب شاید کسی اور صحافی کے انتظار میں ہے۔۔(محمد امنان)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں