خصوصی رپورٹ۔۔
جرگے نے آج فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہمارا گھر مسمار نہیں کریں گے بلکہ اب یہ گھر سیل ہو گا۔ کوئی ہمارے کھیتوں اور باغات کے لیے پانی نہیں دے گا، ہمیں علاقہ چھوڑنا ہوا اور آج کے بعد وزیرستان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی معراج خالد وزیر کے والد حاجی شیر علی خان نے یہ بات بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُس وقت بتائی جب وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ وزیرستان چھوڑ کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نو رکنی جرگے نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جو مجھے وزیرستان میں پناہ دے گا یا میری مہمان داری کرے گا اس پر بھی جرمانہ ہو گا۔ اب میں اپنی تقریباً 20 کروڑ روپے مالیت کی زمین، جائیداد اور باغات چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جا رہا ہوں۔یاد رہے کہ سنیچر کو نو رکنی جرگے نے اپنے ایک فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے پر صحافی معراج خالد وزیر پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا اور جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں اُن کا گھر مسمار کرنے کی دھمکی دی تھی۔
صحافی معراج خالد نے جرگے کی جانب سے علاقے ایک شخص کا گھر مسمار کرنے کے فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر احتجاج کیا تھا تاہم اس معاملے پر احتجاج کرنے کی پاداش میں اب جرگے نے اُن کا اپنا گھر سیل کر دیا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے معراج خالد نے بتایا کہ چونکہ یہ معاملہ میڈیا پر آ گیا تھا اور وانا میں واقع ان کے گھر پولیس بھی تعینات کر دی گئی تھی اسی لیے ان کا گھر مسمار تو نہیں کیا گیا تاہم پیر کے روز جرگے کے حکم پر قبائلی لشکر نے اُن کے گھر کو سیل کر دیا ہے۔جنوبی وزیرستان کے تھانہ وانا لوئر کے محرر نے بھی جرگے کے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھیں اطلاع ملی ہے کہ جرگے نے صحافی کو سوموار تک جرمانہ ادائیگی کی مہلت دی تھی۔
صحافی معراج خالد جو اس وقت چین میں ہیں، نے قومی جرگے کی جانب سے گھر مسمار کرنے کے فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ریاست کے اندر ریاست نہیں بننی چاہیے۔ اگر کسی نے غلط کام کیا ہے تو اس کو سزا دینا ریاست کا کام ہے۔ کسی کے گھر مسمار کرنے سے عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔اس فیصلے پر جنوبی وزیرستان جرگے کے رکن سردار علی ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معراج خالد وزیر نے مقامی رسم و رواج اور جرگے کی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ جرمانہ ادا کر دیں اور جرگے سے معذرت کر لیں۔جبکہ معراج خالد وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ’میں اور میرے خاندان والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جرمانہ ادا نہیں کریں گے تاہم کسی بھی کارروائی کے پیش نظر ہم نے گھر خالی کر دیا ہے۔جنوبی وزیرستان پولیس کے ترجمان کے مطابق سارے معاملے پر پولیس کی نظر ہے اور اس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
جنوبی وزیرستان زلی خیل کی نو رکنی جرگہ کمیٹی نے ڈسٹرکٹ پریس کلب وانا میں سوموار کی صبح ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم صحافت کے خلاف نہیں مگر بیرون ملک بیٹھ کر علاقے کے رسم و رواج کے خلاف باتیں اور سوشل میڈیا پوسٹس کرنے پر قومی مشران ناراض ہیں۔جرگہ کے رکن ملک محمد اسلم نے اس موقع پر کہا کہ قومی مشران قانون اور حکومت کے خلاف نہیں چونکہ جنوبی وزیرستان لوئر کی عدالتی نظام ضلع ٹانک میں واقع ہے، عوام کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہیں اس وجہ سے قوم زلی خیل نے متفقہ طور پر نو رکنی کمیٹی بنائی ہے تاکہ 120 کلومیٹر پر محیط رقبے میں امن و امان، زمین کے تنازعات اور دوسرے مسائل کو افہام و تفہیم کے ساتھ رسم و رواج کے مطابق حل کیا جا سکے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ معراج خالد نے بغیر تحقیق کے من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلائیں جس کی نو رکنی جرگہ بھرپور مذمت کرتا ہے۔
اس سے قبل جرگے کے رکن سردار علی ملک کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں ایک انتہائی حساس معاملے پر دو فریقوں میں تنازع شدید ہوتا جا رہا تھا۔ یہ معاملہ ہمارے نو رکنی جرگے کے سامنے پیش ہوا جس پر تمام معاملے پر غور کے بعد علم ہوا کہ ایک فریق ظلم اور زیادتی کر رہا ہے۔ اس پر جب ان کو تنبیہ کی گئی تو اس فریق نے ناصرف جرگہ ممبران کے ساتھ بدتمیزی کی بلکہ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا ’جس پر جرگے نے متفقہ طور پر اس فریق پر ناصرف جرمانہ کیا بلکہ گھر مسماری کی بھی سزا دی تاکہ اس کو نصیحت ہو اور پھر کوئی کسی کمزور کے ساتھ زیادتی نہ کر سکے۔سردار علی ملک کا کہنا تھا کہ ’جرگے کے اس فیصلے پر صحافی معراج خالد وزیر نے شدید تنقید کی تھی۔ جس پر جرگے کے نو ارکان اور پھر اس کے بعد جرگے کے 120 ارکان نے مشترکہ طور پر معراج خالد وزیر پر جرمانہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ معراج خالد وزیر کی وزیرستان کے لیے بڑی قربانیاں ہیں۔ اس کی مائیں بہنیں ہماری مائیں بہنیں ہیں۔ ہم اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتے ہیں۔ ہم معراج خالد وزیر سے کہتے ہیں کہ وہ جرگے کے سامنے اپنی شرمندگی کا اظہار کر دے ہم معاملے کو ختم کر دیں گے۔
جنوبی وزیرستان کے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کا بتایا کہ یہ نو رکنی جرگہ تین ماہ قبل قائم کیا گیا تھا۔ اس جرگے کے زیر انتظام 120 رکنی جرگہ بھی ہے۔ تین ماہ میں ان لوگوں نے کافی جرمانے کیے ہیں۔عملاً یہ لگ رہا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں اس نو رکنی جرگے کا کنٹرول ہے۔صحافی کا کہنا تھا کہ ’میں خود معراج خالد وزیر کے حوالے سے سٹوری پر کام کر رہا تھا مگر بعد میں اس کو چھوڑ دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی متاثر ہو جاؤں۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ وزیرستان کے صحافیوں کو تحفظ دیا جائے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔۔