تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
عثمان بزدار نے سیاست ہی چھوڑ دی یا چھڑوا دی گئی۔ پی ٹی آئی کے لیے ہر طرف بُری خبریں ہیں۔ اگرچہ اس خبر سے ان لوگوں کو تسلی ہوئی ہوگی جو عثمان بزدار کے خلاف تھے۔
عمران خان نے عثمان بزدار پراحسان کیا تھا یا بزدار کو ڈھونڈ کراستعمال کیا گیااور Punching Bagبنایا گیا تھا؟سیاست میں کوئی کسی پر رحم نہیں کرتا‘سیدھا کاروبار ہوتا ہے۔ آپ کے وزن کے حساب سے ہی آپ کو حصہ ملتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے ہی عمران خان کے جنرل باجوہ سے تعلقات خراب ہوئے۔ عمران خان نے باجوہ صاحب کی سب باتیں مان لیں لیکن انہوں نے بزدار کو ہٹانا نہیں مانا۔بزدار واحد بندہ تھا جس پر خان نے آخر تک سٹینڈ لیے رکھا۔تو بزدار کو اب اس احسان کا بدلہ دینے کے لیے ڈٹ جانا چاہیے تھا؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے کیا بزدار کو وزیراعلیٰ بننے پر رضامند ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ کام ان کی capacity سے بڑا کام تھا اور انسان کو وہ کام نہیں کرنا چاہئے جو اس کی اوقات یا قابلیت سے اوپر ہو۔مجھے زندگی میں ایک بڑا سبق اپنے سابق ایڈیٹر اوراینکر محمد مالک کی ایک بات سن کر ملا تھا۔محمد مالک ایک قابل ایڈیٹر رہے ہیں۔ انہیں انگریزی اخبار ”دی مسلم‘‘کا ایڈیٹر بننے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے فوراً اسے عزت سمجھ کر قبول کر لیا۔جب وہ وہاں گئے تو انہیں احساس ہوا کہ ان سے زیادہ قابل لوگ وہاں موجود تھے۔ انہیں ایڈیٹر نہیں بننا چاہئے تھا۔ محمدمالک کا کہنا تھا کہ نہ صرف آپ اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں کہ ایسا کام پکڑ لیتے ہیں جو کرنے کی آپ کی اوقات نہیں اور دوسرے آپ اُس بندے کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں جو آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ اس اعتماد پر پورے نہیں اُتر پاتے۔ یوں دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔میں نے محمد مالک کی اس خوبصورت بات سے سبق سیکھا کہ محض دولت یا عہدے کے لالچ میں کبھی ایسا عہدہ نہیں لینا چاہئے جو آپ کی صلاحیتوں سے اوپر کی چیز ہو۔ مجھے خود دو ٹی وی چینلز سے بڑے عہدوں کی پیشکش ہوئی۔ معذرت کر لی کہ یہ کام میرا نہیں ہے۔ میرا کام ایک صحافی کا ہے‘ میں اینکر ہو کر شو کرسکتا ہوں‘ چینل کا سربراہ یا ایم ڈی یا صدر بننا یا چینل لانچ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ میں وہی کام کروں گا جو میں جانتا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک نوزائیدہ ٹی وی چینل کے مالک ملے تو بات چیت ہونے لگی۔ کہنے لگے: میں اب تک دس ٹی وی اینکرز سے مل چکا ہوں سب اینکرز چینل کا صدر بننا چاہتے ہیں جس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں یا ان کی فیلڈ نہیں۔ مجھے کہا: آپ نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے چینل کو اس وقت جوائن کروں گا جب آپ مجھے چینل کا صدر بنائیں گے‘کیا وجہ ہے‘ یہاں ہر صحافی اپنا کام چھوڑ کر چینل کا صدر بننا چاہتا ہے؟میں نے جواب دیا کہ میں نے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ کام وہی کروں گا جو مجھے آتا ہے۔ محض پیسے یا عہدے کے لیے ایسا کام نہیں پکڑوں گا جو میری قابلیت یا اوقات سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر کیا تو سب سے پہلے اپنا پھر اس ادارے کا نقصان کروں گا جو مجھے وہ عہدہ دینے پر تیار ہو جائے گا۔ آپ میرے پاس میرے صحافتی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے آئے ہیں نہ کہ آپ میری ”ایڈمنسٹریٹو خوبیوں‘‘ کی وجہ سے۔آپ یقین کریں وہ بڑے عہدے نہ پکڑ کر میں نے خود پر احسان کیا اور بہت خوش ہوں کہ وہی کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس کے بارے میں مجھے کچھ نہ کچھ علم ہے یا میرا کچھ تجربہ ہے۔شاید یہی کچھ عمران خان اور عثمان بزدار کے ساتھ ہوا۔ عمران خان نے ایک ایسے بندے پر بوجھ ڈال دیا جسے اٹھانے کی اس میں صلاحیت نہ تھی۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی حکومت کو ہٹایا گیا اور انہوں نے اپنا بیانیہ بنا لیا ورنہ عثمان بزدار کی حکومت تو پی ٹی آئی کو لے بیٹھی تھی۔ پنجاب میں جس طرح حکومت چلائی گئی اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی خبریں اور سکینڈلز سامنے آئے انہوں نے پی ٹی آئی کی لٹیا ڈبو دی تھی۔ پہلی دفعہ سنا گیا کہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران اور ریونیور اہلکار وں تک تین تین ماہ کے لیے کچھ دے دلا کر تعینا ت ہوئے۔ پہلی دفعہ بیوروکریٹس ٹکے ٹوکری ہوئے۔ چھ چھ چیف سیکرٹری اور آئی جی بدلے گئے۔ تین ماہ سے زیادہ کوئی ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او نہ ٹک سکا۔ان ساڑھے تین سال میں سینکڑوں تبادلے ہوئے‘عہدوں کی بولیاں لگی ہوئی تھیں۔
ویسے تو کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے کہ نیا بندہ جلدی سیکھ کر زیادہ بہتر ڈیلیور کرے‘ لیکن بعض عہدے ایسے ہوتے ہیں جہاں آپ ٹریننگ آن جاب شروع نہیں کردیتے۔ اس لیے دینا بھر کی مضبوط جمہوریت میں شیڈو کابینہ کا تصور ہے کہ اپوزیشن کے دنوں میں آپ عہدے اپنے لوگوں میں قابلیت کے حساب سے دیتے ہیں کہ وہ اس پر کام کرتے رہیں اور اگر الیکشن کے بعد حکومت مل گئی تو وہ پہلے سے ہی ٹرینڈ ہوں گے۔ دنیا بھر میں اس لیے interinship اور apprenticeship کا تصور ہے تاکہ آپ کو کچھ عرصہ سکھایا جائے کہ کوئی کام آپ نے کیسے سرانجام دینا ہے۔
ہر اچھا ایم پی اے یا ایم این اے اگر پارلیمانی سیکرٹری بن کر اپنا سیاسی کیرئیر شروع کرے تو یقین کریں کل وہ وزیر یا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بن کر بہتر پرفارم کرے گا۔بزدار نے زندگی میں وزارت چلانا چھوڑیں ایم پی اے ہی پہلی دفعہ بنے اور سیدھے وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ خود عمران خان کی ان سے پہلی ملاقات بھی اُس وقت ہوئی جب انہیں ‘مرشد‘ نے کہا کہ آپ نے اس بندے کو وزیراعلیٰ بنانا ہے۔ یہی مقدر کا سکندر ہوگا۔ آپ بھی اس کی وجہ سے وزیراعظم رہیں گے اور آپ کو کوئی نہیں ہلا سکے گا۔عثمان بزدار کے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ اس موقع اور چیلنج پر پورے اترتے اور اپنے ناقدین اور مخالفین کو غلط ثابت کرتے لیکن انہوں نے پروا نہیں کی۔خیر جنہوں نے انہیں وزیراعلیٰ بنوایا تھا انہوں نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔خود بزدار کی اپنی قسمت بھی بدل گئی۔ گھر بیٹھے چھپڑ پھاڑ کر دولت ملنے کا محاورہ سنا اور پڑھا تھا لیکن دیکھا پہلی دفعہ تھا۔ان کے ساتھ جڑے سینکڑوں لوگوں کی قسمت بدل گئی۔خان صاحب اس عرصے میں بزدار صاحب کی وہ خوبیاں بھی قوم کو بتاتے رہے جو خود انہیں علم نہ تھیں۔ یقینا عثمان بزدار بھی عمران خان کے منہ سے اپنی تعریفیں سن کر حیران ہوتے ہوں گے۔عمران خان اور عثمان بزدار خوش قسمت نکلے کہ ان کے سیاسی مخالفوں نے جلدی دکھائی اور انہیں ہٹادیا اور یوں عوام میں عزت رہ گئی ورنہ حالات تو یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شاید برسوں تک خان صاحب اور ان کی پارٹی دوبارہ کھڑی نہیں ہوسکتی۔
عثمان بزدار کی ایک بات کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے کبھی مخالفوں کے بارے بُری زبان استعمال نہیں کی۔ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا‘ بولا گیا‘لیکن انہوں نے پلٹ حملے نہ کیے اور نہ ہی سوشل میڈیا ٹیمیں کھڑی کیں کہ وہ سیاسی مخالفین یا ناقدین کو گالی گلوچ کرائیں۔ عمران خان کے قریبی سرکل میں عثمان بزدار شاید واحد تھے جو گالی گلوچ بھی نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی خان کے ڈارلنگ تھے ورنہ کوئی بندہ خان کے دربار میں نہیں ٹک سکتا تھا جب تک کہ وہ روزانہ چار پانچ ٹی وی شوز میں کھل کر مخالفین کو لتاڑ نہ دیتا اور ٹویٹر پر روز گالیاں نہ دیتا۔تمام تر تنقید کے باوجود عثمان بزدار کو اس بات کی داد دیں کہ ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا پر شرافت کا دامن نہ چھوڑا۔ ویسے بتاتا چلوں کہ ابھی بھی خان کا آئندہ وزیراعلیٰ بزدار ہی ہوگا‘ اگر موقع نکلا۔ بزدار کا ‘مرشد‘پکا ہے۔بزدار صاحب کا اصل قصور سیاست چھوڑنا نہیں بلکہ وہ سیاسی عہدہ قبول کرنا تھا جس کے وہ اہل نہ تھے۔(بشکریہ دنیانیوز)