تحریر : علی حسن
جس روز آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں گے، اس سے اگلے روز آپ کو اپنے علاقے کے پولنگ اسٹیشن جاکر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا امیدوار کو اپنے ووٹ دینا ہے۔ بظاہر الیکشن آئندہ پانچ سال کے لئے منعقد ہو رہے ہیں۔ دیکیھں عوام کن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔ یہ پانچ سال قوم اور لوگوں کو علم ہونا چاہئے کہ ان کے مستقبل کے لئے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ ویسے اکثرلوگ نا خواندہ اور محکوم ہونے کی وجہ سے غلام بن گئے ہیں۔ انہیں جو کہا جاتا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر عمل کرتے ہیں۔ انہیں جب ووٹ ڈالنے کے لئے ٹریکٹر لاریوں میں لاد کر پولنگ اسٹیشن لایا جاتا ہے اور بریانی کی ایک تھیلی ہاتھوں میں تھما دی جاتی ہے۔ جب آدھا دن گزر جاتا ہے تو جو جو امیدوار کے ایجنٹ ووٹر کو لے کر آتے ہیں انہیں کھانے کے لئے ایک ایک پاﺅ بریانی کی تھیلی تھما دیتے ہیں۔ پینے کے پانی کا انتظام خود بریانی کھانے والے کو کرنا پڑتا ہے۔ پولنگ اسٹیشن اور واپسی پر انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ ” جیئے بھٹو یا شیر ساڈا ہے “ کے نعرے بھی لگاﺅ۔ کیا الیکشن کمیشن کو علم نہیں کہ دولت مند امیدوار ووٹ خریدتے ہیں ؟ طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ امیدواروں کے دلال یا ایجنٹ اپنے اپنے گاﺅں میں گھوم کر لوگوں کے شناختی کارڈ لے لیتے ہیں ۔ انہیں یہ کارڈ پولنگ والے روز ووٹ ڈالنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر امیدوار نے ووٹ کی قیمت دو ہزار مقرر کی ہے تو ان کا دلال ووٹر کو ایک ہزار روپے ہی دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ”نادان“ عہدیداروں اور افسران کو علم ہی نہیں کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
کیا نواز شریف یا ان کی صاحبزادی مریم ، ان کے بھائی شہباز شریف، بھتیجے حمزہ نے عوام سے براہ راست اس طرح کی ملاقات کی جس میں عوام سے کسی موضوع پر تبادلہ خیال کیا ہو۔ کیا آصف زرداری یا بلاول بھٹو نے کسی بھی شہر میں اپنے ووٹروں سے دو طرفہ گفتگو کی زحمت کی ہے۔ ، آصفہ کو بھی میدان میں لایا گیا ہے ، انہوں نے بھی کہیں بھی لوگوں کا کوئی سوال ہی نہیں سنا۔ کیا سراج الحق، کیا خالد مقبول صدیقی، کیا مولانا فضل الرحمان یا کسی اور رہنماءقسم کے صاحب نے کہیں اپنے حلقے کے ووٹروں سے دو طرفہ گفتگو کا اہتمام کیا۔ ووٹر کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، صحافیوں کے ساتھ بھی سیدھے منھ بات نہیں کی گئی۔ بھاری بھاری خرچوں پر جلسے البتہ کر لئے۔ اخبارات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے صفحہ اول ”خرید “ لئے تاکہ پارٹی کی قیادت کی تشہیر کی جا سکے ۔ میڈیا کے ”کارندے“ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا شکار رہے۔ یہاں تو اب پریس کانفرنس بھی جلسہ عام جیسی ہوتی ہے تاکہ کوئی صحافی سوال ہی نہ کر سکے۔ حیدرآباد میں بلاول بھٹو زرداری کا جلسہ عام تھا۔ صحافی آپس میں شکایت کر رہے تھے کہ پانی تک کو کسی نے نہیں پوچھا۔ سوال یہ ہے کہ صحافیوں یا رپورٹروں کو کس نے بلایا تھا کہ جلسہ میں خجلت براداشت کر کے خبر بناﺅ۔ رپورٹنگ کرنے والے صحافی کیوں نہیں اپنی اپنی ٹریڈ یونین سے با ضابطہ شکایت کرتے ہیں، کیوں نہیں، پریس کلب کے عہدیداروں کو اعتماد میں لے کر با ئیکاٹ کا انتظام کرتے ہیں۔ رپورٹر اور کیمرا مین اور فوٹو گرافر حضرات نے تو یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ موسم کی پرواہ کئے بغیر ، پیٹرول کا خرچہ دیکھے بغیر معمولی پریس کانفرنس میں شریک ہونے چلے جاتے ہیں۔ ماضی میں محکمہ اطلاعات ہو یا سیاسی رہنما باضابطہ طور پر پریس کلب پر اپنی گاڑی بھیجتے تھے ۔ اب کیا مجبوری ہے؟ یہ رپورٹر کمی کمین یا ہاری نہیں ہیں کہ انہیں وڈیرے یا چوہدری نے جیسے کہا وہ کر دیا۔ یہ تو بھانڈ ، میراثی، منگن ہار بھی نہیں کرتے ۔ وہ بھی اب اپنے کام کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ دو لقمہ کھانے پر اب نہیں ترختے یا ٹلتے ہیں۔ لیکن رپورٹر تو اس برتاﺅ پر شائد خوش ہوتے ہیں کہ وہ خرکار کے بے گار کیمپ کے ہرکارے ہیں۔ اس تماش گاہ میں لوگ خائن، بے ایمان، لٹیروں کو منتخب ہی کیوں کرتے ہیں۔ نام لینا کسی کا مجھے گوارا نہیں ہے لیکن عوام جانتے ہیں کہ کون کون خائن ہیں جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو لوٹا ہے اور خود دولت مند بن گئے ہیں۔ اپنے ماضی میں اکثر سیاسی رہنماءغریب تھے ، دولت مند نہیں تھے۔ وہ قومی وسائل میں خیانت کر کے ہی دولت مند بنے ہیں۔ دولت مند ہونے کے اسی گھمنڈ میںاپنے ووٹروں کو تو کمی کمین اور ہاری تصور ہی کرتے ہیں لیکن صحافیوں کو بھی بھانڈ ، میراثی۔ منگنہار اور بیگار کیمپ کا ہرکارہ کا درجہ دیتے ہیں۔ (علی حسن)